دین اِسلام کے بارے میں سوال جواب

سوال: اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کون ہے؟ کیا مسلمان مختلف خدا (God) کی عبادت کرتے ہیں؟

جواب: کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان ایک ایسے خدا کی عبادت کرتے ہیں جو کہ اُس خدا سے مختلف ہے جس کی عبادت عیسائیت یا یہودیت میں کی جاتی ہے، یہ غلط فہمی شاید اس وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ مسلمان خدا کو اللّٰہ کہتے ہیں اور اللّٰہ عربی زبان میں اس ذات کا نام ہے جس کے پاس سب طاقتیں ہیں، صرف وہی عبادت کا مستحق ہے، اُسی نے سارے جہانوں کو اور انسانوں کو پیدا کیا۔

اِس بات میں کوئی شک نہ رہے کہ مسلمان اُسی خدا کی عبادت کرتے ہیں جس کی عبادت نوح عَلَیْہِ السَّلَام ، ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام ، موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام ، داؤد عَلَیْہِ السَّلَام اور عیسی عَلَیْہِ السَّلَام نے کی، بہرحال اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کا خدا کے بارے میں مختلف نظریہ ہے، مثلاً مسلمان ، عیسائیوں کے عقیدئہ تثلیث اور خدا کا انسانی صورت میں آنا، اِس کی سخت مخالفت کرتے ہیں، اس عقیدے کی وجہ سے یہودی بھی عیسائیوں کے سخت مخالف ہیں، اسی طرح یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ عزیر عَلَیْہِ السَّلَام اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے بیٹے ہیں، مسلمان اس عقیدے کا بھی رد کرتے ہیںمگراس کا مطلب یہ ہر گزنہیں کہ یہ تینوں ادیان تین مختلف خداؤں کی پوجا کرتے ہیں۔

ہم پہلے ہی اس بات کی وضاحت کرچکے ہیںکہ سچا خدا صرف ایک ہی ہے، یہودی، عیسائی اور مسلمان سب کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ دین ابراہیم پر ہیں، لیکن اسلام نے اس بات کی خوب وضاحت کردی ہے کہ دیگر ادیان والوں نے خدا تعالیٰ کے بارے میں صحیح عقائد کو بگاڑ دیا ہے اوردین کی سچی تعلیمات کو ہٹا کر انسانوں کے بنائے ہوئے نظریات کو اپنالیا ہے ۔

بہرحال خدا تعالیٰ کے لیے لفظ ’’اللّٰہ‘‘ ہی سب سے مناسب لفظ ہے کیونکہ لفظ ’’اللّٰہ‘‘ کی نہ تو جمع ہے اور نہ ہی اس کی کوئی جنس(مذکر و مؤنث کے حوالے سے) جبکہ لفظ Godکی جمع بھی ہے اور جنس بھی مثلاًGodsاور Goddess(مؤنث خدا)۔

قرآنِ مقدس جو کہ مسلمانوں کے لیے اللّٰہ تعالیٰ کا کلام ہے عربی زبان میں نازل ہوا، اس لیے مسلمان Godکے لیے لفظ’’ اللّٰہ ‘‘کا استعمال کرتے ہیںاگرچہ وہ بات کسی اور زبان میں ہی کیوںنہ کررہے ہوں مگر خدا تعالیٰ کے لیے عربی کا لفظ ہی زیادہ تر استعمال کرتے ہیں جو کہ’’اللّٰہ‘‘ ہے اور لفظ اللّٰہ کا ترجمہ انگلش زبان میں صرف God کی بجائے یوں کیا جائے:

’’ The One and only Godیا The One true God ‘‘

سوال: قرآن کئی جگہوں پر ا للّٰہ تعالیٰ کے لیے لفظ ’’ہم‘‘ کا استعمال کرتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسلمان ایک سے زیادہ خداؤں کو مانتے ہیں؟

جواب: اسلام میں خالص توحید کا ماننا لازم ہے، اسلام اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ اللّٰہ صرف ایک ہے اور اس کی تقسیم ممکن نہیںہے، قرآنِ مقدس میں اللّٰہ تعالیٰ نے کئی جگہوں پر اپنی ذات کے لیے ’’ہم‘‘ کا لفظ استعمال کیا لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ اسلام میں ایک سے زیادہ خداؤں کا عقیدہ پایا جاتا ہے، اللّٰہ تعالیٰ کا اپنے آپ کو قرآنِ پاک میں ’’ہم‘‘سے تعبیر فرمانا ’’طاقت‘‘ اور ’’بادشاہت‘‘ پر دلالت کرتا ہے۔

کچھ زبانوںمیں دو طرح کی جمع ہوتی ہے، ایک کا تعلق دو یا دو سے زیادہ اشخاص، چیزوںیا جگہوں کیساتھ ہوتاہے اور دوسری جمع وہ ہوتی ہے جو کہ عظیم رتبے، طاقت اور انفرادیت پر دلالت کرتی ہے مثلاً خالص انگریزی زبان میں Englandکی ملکہ جب تقریر کرتی ہے تو اپنے لیے We یعنی ’’ہم‘‘ کا لفظ استعمال کرتی ہے۔ (اس کو Majestic Plural یا پھر Royal Pluralیعنی شان و شوکت یا بادشاہت والی جمع کہتے ہیں۔)

سارے قرآن میںجگہ بہ جگہ اللّٰہ تعالیٰ کی توحید پر تاکیدیں موجود ہیں، اس کی واضح مثال اس چھوٹی سی سورت ِمبارکہ میں دیکھی جاسکتی ہے:

قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌoجاَللّٰہُ الصَّمَدُoج لَمْ یَلِدْ لاوَ لَمْ یُوْلَدoلاوَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌoع

(پ۳۰، سورۃ الاخلاص)

ترجمۂ کنزالایمان: تم فرماؤ وہ اللّٰہ ہے وہ ایک ہے اللّٰہ بے نیاز ہے نہ اس کی کوئی اولاد اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ اس کے جوڑ کا کوئی۔

سوال: قرآن کہتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ رحم کرنے والا ہے اور وہ سخت عذاب بھی دیتا ہے تو یہ دونوںباتیں ایک ساتھ کیسے درست ہوسکتیںہیں، یا تو وہ معاف کرنے والا ہے یا سزا دینے والا ہے؟

جواب: قرآن پاک میں کئی جگہوںپر اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت کا ذِکر موجود ہے درحقیقت سوائے ایک کے قرآن کی ساری سورتیں ’’ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم‘‘سے شروع ہوتی ہیں، اس کا مطلب ہے ’’ اللّٰہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔‘‘

رحمن اور رحیم دونوں الفاظ عربی گرامر کے اعتبار سے مبالغہ کے صیغے ہیں، رحمن کا معنی ہے: ’’ساری مخلوق پر رحم فرمانے والا‘‘ اور انصاف کرنا اس کی رحمت کا حصہ ہے، رحیم کا معنی ہے:’’ خاص کر ایمان والوں پر رحم فرمانے والا‘‘ اور معاف کردینا بھی اُس کی رحمت کا حصہ ہے۔

ان دونوں صفات کے اکٹھے استعمال سے بڑا جامع اور کامل معنی حاصل ہوتا ہے، معاف کرنا اور انصاف کرنا یہ سب اس کی رحمت ہے، مزید یہ کہ اللّٰہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں ستر سے زیادہ جگہوں پر اپنی رحمت اور معافی کا ذکر کیاہے، اللّٰہ تعالیٰ بار بار اپنی رحمت و مغفرت کی ہمیں یاد دلاتا ہے:

وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o

(پ۲، البقرۃ: ۲۱۸)

ترجمۂ کنزالایمان: اور اللّٰہ بخشنے والا مہربان ہے۔

ہاں جو اس کے عذاب کے مستحق ہیں اُن کو وہ سخت عذاب بھی دیتا ہے، اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے محبوب حضرت محمدصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے فرمایا:

نَبِّیئْ عِبَادِیْٓ اَنِّیْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ oلا وَاَنَّ عَذَابِیْ ہُوَالْعَذَابُ الْاَلِیْمُ o

(پ۱۴، الحجر: ۴۹،۵۰)

ترجمۂ کنزالایمان: خبردو میرے بندوں کو کہ بے شک میں ہی ہوں بخشنے والا مہربان اور میرا ہی عذاب دردناک عذاب ہے۔

اللّٰہ تعالیٰ انصاف فرمانے والا ہے اور یہ بات انصاف کو لازم ہے کہ وہ اُن کو انعام دے جو اس کا حکم مانے اور اُن کو سزادے جو اس کی نافرمانی اور بغاوت کرے، اگر اللّٰہ تعالیٰ کسی مجرم کو سزا دے تو یہ اس کا عدل اور انصاف ہوگا اور اگر وہ کسی مجرم کو معاف فرما دے تو یہ اس کی رحمت، فضل اور معافی ہوگی، اللّٰہ جو کہ رحمن و رحیم ہے، اُن سب کو معاف فرمادیتا ہے جو توبہ کرتے ہیں اور زندگی کے کسی حصے میں بھی اپنی اصلاح کرلیتے ہیں، اُس نے انسانوں کو اپنی کثیر معافی اور رحمت کی طرف دعوت دی ہے:

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاط اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُoوَاَنِیْبُوْٓا اِلٰی رَبِّکُمْ وَاَسْلِمُوْا لَہٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَo وَاتَّبِعُوْٓا اَحْسَنَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ بَغْتَۃً وَّاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ o

(پ۲۴، الزمر: ۵۳ تا۵۵)

ترجمۂ کنزالایمان: تم فرماؤ اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللّٰہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو بیشک اللّٰہ سب گناہ بخش دیتا ہے بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے اور اپنے رب کی طرف رجوع لاؤ اور اسکے حضور گردن رکھو قبل اسکے کہ تم پر عذاب آئے پھر تمہاری مدد نہ ہو اور اسکی پیروی کرو جو اچھی سے اچھی تمہارے رب سے تمہاری طرف اتاری گئی قبل اس کے کہ عذاب تم پر اچانک آجائے اور تمہیں خبر نہ ہو۔

سوال: کچھ لوگ یہ مانتے ہیں کہ مسلمان حضرت محمدصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی عبادت کرتے ہیں کیا یہ سچ ہے؟

جواب: مسلمان کسی طرح سے بھی اللّٰہ تعالیٰ کے رسول اور بندے حضرت محمدصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی عبادت نہیں کرتے، ہم یہ مانتے ہیںکہ وہ اللّٰہ کے آخری رسول ہیں، سارے نبیوں کے امام ہیںاور اللّٰہ نے اُنہیں مبعوث کیا جیسا کہ دوسرے انبیاء کو مبعوث کیا، بہرحال کچھ لوگ غلطی سے اپنے تئیں یہ فرض کرلیتے ہیں کہ مسلمان حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عبادت کرتے ہیں حالانکہ جس طرح عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے کبھی خدائی کا دعویٰ نہیں کیا اُسی طرح محمدصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بھی کبھی خدائی کا دعویٰ نہیں کیا، اُنہوںنے لوگوں کو صرف ایک خدا کی عبادت کی طرف بُلایا، حضرت محمدصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہمیشہ اپنے بارے میں یہ فرماتے کہ میں اللّٰہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔

حضرت محمدصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اللّٰہ تعالیٰ نے آخری نبی کے طور پر چنا اور انہوںنے اللّٰہ تعالیٰ کا کلام ہم تک پہنچایا، ناصرف الفاظ کی حد تک بلکہ عمل کرکے جیتی جاگتی مثالوں کے ساتھ اللّٰہ تعالیٰ کا پیغام ہمیں پہنچایا اور ہمیں دین سکھایا، مسلمان ان سے بہت پیار کرتے ہیں اور ان کی بہت عزت و احترام کرتے ہیں کیونکہ ان کا اَخلاق اور کردار بہت مثالی ہے، انہوں نے اللّٰہ تعالیٰ کا پیغام ہم تک مکمل طور پر پہنچا دیا نیز وہ اللّٰہ تعالیٰ کے چُنے ہوئے اور اس کے محبوب ہیں نیز اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی محبت کو ہمارے ایمان کی بنیاد بنادیاہے، یہ اسلام کی خالص توحید ہے۔

مسلمان کوشش کرتے ہیں کہ وہ حضرت محمدصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی کامل اِطاعت کریںلیکن کسی طرح بھی ان کی عبادت نہیں کرتے، اسلام اس بات کی بھی تعلیم دیتا ہے کہ مسلمان اللّٰہ تعالیٰ کے سارے نبیوں کی عزت کریں اوراُن سے محبت کریں لہٰذا عزت کرنے اور احترام کرنے کا مطلب عبادت کرناہر گز نہیں ہے کیونکہ فقط احترام اور عبادت کے مابین بڑا واضح فرق موجود ہے اورمسلمان اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ ساری عبادتیں صرف اللّٰہ تعالیٰ کے لیے ہیں۔

درحقیقت اسلام میں اللّٰہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت کرنا ایسا گناہ ہے کہ جس کی معافی نہیں ہے خواہ وہ حضرت محمدصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی عبادت ہو یا کسی اور کی، اگر کوئی شخص مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہو اور اللّٰہ تعالیٰ کے سواکسی اور کو پوجتاہو تو وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے، جب ہم کلمۂ شہادت پڑھ کر اپنے ایمان کی گواہی دیتے ہیں تو یہ اس بات کا واضح اِعلان ہوتا ہے کہ ہم مسلمان صرف اور صرف اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں۔

سوال: کیا اسلام دَقیانوسی (فرسودہ)دین ہے؟

جواب: مسلمانوں کو اس بات پر بڑی حیرانگی ہوتی ہے کہ اُن کا دین جس کے اندر عمل اور عقیدے کے اعتبار سے ایک قابل تعریف توازُن پایا جاتا ہے بعض اوقات اس پر دَقیانوسی ہونے کا بہتان لگادیا جاتا ہے شاید یہ غلط فہمی لوگوں کے اندر اس وجہ سے پیدا ہوگئی ہے کہ ہر خوشی و غم کے موقع پر مسلمان اَلْحَمْدُ للّٰہکہتے سنائی دیتے ہیں، ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ مسلمان یہ جانتے ہیںکہ’’ ہر شے اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے‘‘ جو کہ سارے جہانوں کا پیدا کرنے والا ہے اور سب کچھ اسی کی مرضی سے ہوتا ہے، یہ وجہ ہے کہ مسلمان مادی معاملوں کی کم فکر کرتا ہے اور دنیا کی اِس عارضی زندگی کو ایسے دیکھتا ہے جیسے اُسے دیکھنا چاہیے، ایک سچا مسلمان اللّٰہ تعالیٰ پر کامل بھروسا کرتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ ہمارے بھلے کیلئے ہوتاہے ، یہ بات کسی کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے لیکن مسلمان خوشی سے اللّٰہ تعالیٰ کے فیصلے (تقدیر)کو قبول کرلیتا ہے، جو اُس کے ناراض ہونے یا نا خوش ہونے کی وجہ سے بدلنے والا نہیں ہے۔

اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ مسلمان بیٹھ کر اپنی تقدیر کا انتظار کرے اور عملی طور پر زندگی میں کوئی قدم نہ اٹھائے بلکہ اسلام اس بات پر زور دیتا اور تقاضا کرتا ہے کہ مسلمان کوشش کرکے ہر قابلِ کراہت اور قابلِ مَذمت عادت کو بدل ڈالیں، عمل تو مسلمان کے ایمان کے ساتھ ساتھ چلتا ہے کیونکہ اگر انسان کے اندر اپنے فیصلے سے کچھ کرنے کی صلاحیت نہ ہوتی تو پھر یہ بات انصاف سے بہت دور ہوتی کہ اس سے عمل کا تقاضاہی کیا جائے یا وہ بعض بُرے عمل چھوڑ دے۔

دَقیانوسی ہونا تو دور کی بات ہے اسلام تو اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ انسان کا اِس زندگی میں بڑا مقصد اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے اور ایسے عمل کرنے ہیں جس سے وہ راضی ہوجائے،اسلام کی تعلیمات یہ ہیں کہ انسان زندگی میں مثبت قدم اُٹھائے اور عبادت و دعا کے ذریعے سے اس کو مضبوط کرے، کچھ لوگ سست اور لاپرواہ ہوتے ہیں اور جب اُنہیں کوئی مشکل یا دکھ پہنچتا ہے تو سارے کا سارا الزام اپنی قسمت یا تقدیر پر لگادیتے ہیں، کچھ تو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ اس حد تک پہنچ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر اللّٰہ تعالیٰ چاہتا تو وہ یہ گناہ یا یہ جرم نہ کرتے، نَعُوْذُ بِاللّٰہِگویا کہ یہ گناہ اُن سے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے کروایا ہو۔

اِس طرح کے دلائل ناسمجھی پر مبنی ہوتے ہیں کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ ہمیشہ وہی کرتا ہے جو صحیح ہوتاہے، اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں اس چیز کا حکم نہیں دیا ہے جوہماری طاقت سے باہر ہے کیونکہ اس کا انصاف کا مل ہے اور بے عیب ہے۔

سوال: کیا تم مرنے کے بعدد وبا رہ زندہ ہونے کا یقین رکھتے ہو؟ موت کے بعد زندگی کی تصدیق آپ کیسے کرسکتے ہیں؟

جواب: اسلام اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ موجودہ زندگی ایک آزمائش ہے اور آخرت کی تیاری کے لیے ہم کو دی گئی ہے، ایک دن ایسا آئے گا کہ یہ سارا جہان تباہ و برباد کردیا جائے گااور پھر سے اس کی تخلیق ہوگی اور مردے پھر سے زندہ ہوجائیں گے، اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حساب و کتاب کے لیے پیش ہوں گے۔
قیامت کا دن ایک دوسری زندگی کی ابتداء ہوگی، ایسی زندگی جو پھر ختم نہ ہوگی، یہ وہ وقت ہوگا کہ جب ہر ایک کو اس کے کیے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ جو کہ سب سے زیادہ انصاف فرمانے والا ہے انسان کے اچھے اور بُرے اعمال کی بنیاد پر اُنہیں جزاد ے گا۔

اگر موت کے بعد زندگی نہ ہوتی تو اللّٰہ تعالیٰ کو ماننا بے معنی ہوجاتا ہے اور اگر کوئی اللّٰہ تعالیٰ پر یقین رکھتا بھی تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ یہ کیسا عجیب خدا ہے کہ ایک بار انسان کو پیدا کرنے کے بعد اس کے بارے میں اُسے کوئی پرواہ ہی نہیں ہے، بے شک اللّٰہ تعالیٰ سب سے ز یادہ انصاف فرمانے والا ہے، وہ ایسے ظالم کو سزا دے گا جس کے جُرم بہت ہیں، مثلا سینکڑوں بے قصور انسانوں کو قتل کرنے والا، معاشرے کے اندر بُرائی پھیلانے والا ، اپنے آرام اور سکھ کے لیے دوسرے انسانوں کو اپنا غلام بنانے والا وغیرہ وغیرہ۔

زندگی مختصر سی ہے ایک شخص کے اچھے یا بُرے اعمال کی وجہ سے بہت سارے لوگ متأثر ہوتے ہیں، صحیح اور پوری پوری جزا اس مختصر سی زندگی میں ناقابل عمل ہے، قرآنِ مقدس قطعی طور پر اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ قیامت کادن آئے گا اور ہر نفس کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ فیصلہ فرمائے گا، ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ اُسے انصاف ملے اگرچہ لوگ دوسروں کے لیے انصاف کے خواہاں نہ ہوں لیکن اپنے لیے ضرور انصاف چاہتے ہیں مثلاً معاشرے کے جرائم پیشہ اور ظالم افراد، اثرو رسوخ اور طاقت کے نشے میں دُھت، لوگوں کو تکلیف اور دُکھ پہنچانے میں بالکل نہ ہچکچانے والے، ایسے لوگوں کے ساتھ اگر کہیں ناانصافی ہوجائے تو اس پر سخت اعتراض کرتے ہیں اور خوب شور مچاتے ہیں۔

ہر وہ شخص جس کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہو، معاشرتی یا معاشی اس کا کوئی بھی رتبہ ہو وہ یہ ضرور چاہے گا کہ اس پر زیادتی کرنے والے کو سزا ملے، اگرچہ مجرموں کی ایک بڑی تعداد کو سزا مل جاتی ہے لیکن کئی مجرم ایسے ہیںکہ جن کو بہت ہلکی سی سزا ملتی ہے یا پھر وہ آزاد کردیئے جاتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ وہ ایک آرام دہ خوشیوں سے بھری اور پُر امن زندگی گزاررہے ہوں، اللّٰہ تعالیٰ کسی مجرم کو دنیا میں سزا نہ بھی دے لیکن قیامت کے روز اس مجرم کی سخت گرفت ہوگی اور اس کو سزا دی جائے گی۔

یہ صحیح ہے کہ مجرم کو اس کی سزا کا ایک حصہ اس دنیا میں مل جائے لیکن یہ سزا ناقص رہے گی بالکل اسی طرح جس نے اچھے کام کیے، لوگوں کی مدد کی اور ان میں علم پھیلایا، ان کے ایمان کی حفاظت کا سامان کیا، زندگیاں بچائیں ،حق اور سچ کی تائید میں مشکلات اور ناانصافیوں کو صبر سے برداشت کرتا رہا، دنیا کی مختصر سی زندگی میں ان اچھے کاموںکی پوری پوری جزا نہیں دی جاسکتی، اس طرح کے نیک اعمال کی پوری پوری جزا اُسی زندگی میں دی جاسکتی ہے کہ جو ختم ہونے والی نہیں ہے۔

آخرت پر یقین رکھنا مکمل طور پر عقل میں آنے والی بات ہے، اللّٰہ تعالیٰ نے کچھ چیزیں ایسی پیدا فرمائیں ہیں جو کہ ہمیں اس دنیا کی زندگی میں خوشی دیتی ہیں اور اچھی لگتی ہیں جیسا کہ انصاف، اگرچہ عمومی طور پر یہ ملتا نہیں ہے۔ ایک شخص دنیا کے اندر اپنے کئی سارے مقاصد میں کامیاب بھی ہوجاتا ہے، دنیا میں سکھ کا ایک اچھا خاصہ حصہ بھی پاتا ہے لیکن وہ اس بات کا قائل ہوتا ہے کہ دنیا انصاف کی جگہ نہیںہے۔

یہ زندگی ہمارے وجود کا ایک حصہ ہے اور آخرت اس کا ضروری نتیجہ ہے جس کے ذریعے سے عدل و انصاف کا پورا توازُن قائم ہوجاتا ہے، جو یہاںنہیں ملا وہ وہاں مل جائے گا اور کسی طرح جو یہاں ناجائز طریقے سے حاصل کیا گیا، انسان آخرت میں اس سے محروم کردیا جائے گا۔ یہ وہ کامل اور بے عیب انصاف ہے جس کا وعدہ سب سے زیادہ انصاف کرنے والے بے عیب رب نے کیا ہے۔

سوال: کیا یہ سچ ہے کہ حضرت محمدصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے خود قرآن لکھا ہے یا انجیل سے نقل کیا ہے؟

جواب: اس غلط فہمی کو دور کرنے سے پہلے اس چیز کو نوٹ کرنا بہت ضروری ہے کہ قرآنِ مجید کے علاوہ کسی اور آسمانی کتاب میں بار بار اور واضح دعویٰ نہیں کیا گیا کہ وہ بلاواسطہ اللّٰہ تعالیٰ کا کلام ہے، اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا

َ فَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَطوَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًاo

(پ۵، النساء: ۸۲)

ترجمۂ کنزالایمان: تو کیا غور نہیں کرتے قرآن میں اور اگر وہ غیر خدا کے پاس سے ہوتا تو ضرور اس میں بہت اختلاف پاتے۔

جب قرآن نازل ہورہا تھا تو اہل عرب اس بات کو پہچان چکے تھے کہ قرآن کی زبان بڑی منفرد اور اُس زبان سے واضح طور پر مختلف ہے ، جس کو حضرت محمدصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماور دیگر لوگ بولتے تھے باوجود اس کے کہ اُس وقت کے عرب لوگ شعر و شاعری اور زبان کی فصاحت و بلاغت میں بڑے ماہر تھے۔
مزید یہ کہ حضرت محمدصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ظاہراً پڑھے لکھے نہ تھے اس کا معنی یہ ہے کہ آپصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے کسی ایسے تعلیمی نظام کے تحت علم حاصل نہیں کیا جو اُس وقت مکہ مکرمہ اور اس کے اَطراف میں معروف تھا لیکن بے شک اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو علم سکھایا، قرآنِ پاک بیان کرتا ہے:

وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ ط

(پ۵، النساء:۱۱۳)

ترجمۂ کنزالایمان: اور تمہیں سکھادیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے ۔

اگر حضرت محمدصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکسی کے پاس تحصیل علم کے لیے گئے ہوتے تو آپصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہم عصر لوگ جو آپصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے مخالف تھے ضرور اس بات کا چرچا کرتے اور اِس سے پردہ اٹھاتے لیکن اس بات کی کوئی شہادت موجود نہیںہے کہ مخالفین نے ایسا کیا ہو، اس میں شک نہیں کہ کئی لوگوں نے حضورصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے پیغام کو رد کیا جیسا کہ لوگ پچھلے انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کے پیغام کو رد کرتے آئے ہیں لیکن کسی نے حضرت محمدصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے پیغام کو رد کرنے کی یہ وجہ بیان نہیں کی کہ انہوں نے کہیں سے پڑھا ہے یا سیکھ کر آتے ہیں اور پھر ہم کواِس دعوی کیساتھ بتاتے ہیں کہ یہ اللّٰہ تعالیٰ کا کلام ہے۔

اس بات کو نوٹ کرنا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اگرچہ قرآن مجید کوئی شعر و شاعری کی کتاب نہیں ہے لیکن قرآن کے نزول کے بعد عربوں کا میلان شعرو شاعری کی طرف کم ہوگیا، یہ کہا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید عربی ادب کا شاہکارہے اور حضرت محمدصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے دشمنوں نے یہ جان لیا تھا کہ وہ قرآن کی فصاحت و بلاغت کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں، قرآن سے اچھا کلام پیش کرنا تو دور کی بات، قرآن کی ایک چھوٹی سی سورت کے برابر بھی کچھ نہ پیش کرسکے۔

اسلام پرتنقید کرنے والے کچھ عیسائی اس بات کا دعویٰ کرتے ہیںکہ حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمقران کے بذاتِ خود مصنف تو نہیںہیں لیکن اُنہوںنے یہودیوں اور عیسائیوں کی کتابوں سے نقل کرکے قرآن تیار کیا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت محمدصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا کسی یہودی یا عیسائی عالم کے ساتھ کوئی رابطہ نہ تھا، تاریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ آپصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اعلانِ نبوت سے قبل صرف تین سفر کیے،چھ سال کی عمر میں آپصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّما پنی امی حضور سیدتنا آمنہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے ساتھ مدینہ تشریف لے گئے۔اور بارہ سال کی عمر مکمل ہونے سے پہلے آپصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے چچا ابو طالب کی معیت میں شام کا ایک کاروباری سفر کیا اور پھر اپنی پہلی شادی سے

پہلے جب آپصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عمر پچیس سال کی تھی حضرت خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاکے ایک تجارتی قافلے کو شام لے گئے۔(1)

ایک صاحبِ علم عیسائی شخص جس کو آپصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمجانتے تھے وہ ایک بوڑھا اور نابینا شخص تھا جس کا نام تھا وَرَقہ بن نوفل، وہ حضرت بی بی خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کا رشتے دار تھا، وہ اپنا پرانا مذہب چھوڑ کر عیسائیت میں داخل ہوا تھا اور انجیل کی بڑی مہارت رکھتا تھا، حضورصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماُس سے صرف دوبار ملے، پہلی مرتبہ اعلانِ نبوت سے تھوڑا سا وقت پہلے (2) اور دوسری مرتبہ حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمورقہ بن نوفل سے اس وقت ملے جب آپصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر پہلی وحی نازل ہوئی، (3) وَرَقہ بن نوفل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ مسلمان ہوگئے اور یہ وہ پہلے عیسائی عالم ہیں جو دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے (4) اور اُس کے تین

سال بعد انتقال فرما گئے۔ (1)لیکن قرآنِ مجید کا نزول تئیس23 سال تک جاری رہا۔ (2)

مشرکین میں سے حضورصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے بعض دشمن آپصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر بہتان باندھتے تھے کہ انہوں نے قرآن رُوم کے ایک لوہار سے سیکھا ہے جو کہ عیسائی ہے اور مکہ سے باہر اُس نے اپنا ڈیرا لگایا ہوا ہے، اُن کے اس بہتان کے رد میں اللّٰہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :

وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّہُمْ یَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا یُعَلِّمُہٗ بَشَرٌط لِسَانُ الَّذِیْ یُلْحِدُوْنَ اِلَیْہِ اَعْجَمِیٌّ وَّہٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ o

(پ۱۴، النحل: ۱۰۳)

ترجمۂ کنزالایمان: اور بیشک ہم جانتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں یہ تو کوئی آدمی سکھاتا ہے جس کی طرف ڈھالتے(اشارہ کرتے) ہیں اس کی زبان عجمی ہے اور یہ روشن عربی زبان۔

حضرت محمدصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دشمن بڑے قریب سے دیکھتے رہتے تھے کہ شاید اُنہیں کوئی ایسی شہادت مل جائے جس کی بنیاد پر وہ یہ ثابت کرسکیںکہ حضرت محمدصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ایک جھوٹے انسان ہیںلیکن وہ کوئی ایک موقع بھی ایسا نہ ڈھونڈ پائے کہ جس کی بنیاد پر وہ یہ بات کرپاتے کہ حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم چھپ کر کسی خاص یہودی یا عیسائی سے ملتے ہیں۔

یہ بات سچ ہے کہ حضرت محمدصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے یہودیوں اور عیسائیوں سے مذہبی گفتگو فرمائی ہے لیکن وہ سب مکالمے کھلے عام مدینہ منورہ میں ہوئے جبکہ قرآنِ پاک کا نزول تیرہ13 سال پہلے سے ہورہا تھا، یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ یہودیوں اور عیسائیوں کا قرآن لکھنے میں حضورصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی معاونت کرنا عقلاً نقلاً بے بنیاد ہے، خاص کر جب حضورصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا مرکزی کردار ایک ہادی اور اُستاد کا تھا، آپصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے کھل کر یہودیوں اور عیسائیوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی، اُن پر واضح کیا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی توحیدکی صحیح تعلیمات سے وہ لوگ کیسے پھرے، بہت سارے یہودی اور عیسائی حضور اکرمصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی دعوت کو سن کر یہودیت اور عیسائیت چھوڑ کر دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئے۔

یہ اللّٰہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ اس نے آخری نبی کے طور پر ایسی ذات کو بھیجا جو کہ ظاہراً پڑھی لکھی نہ تھی تاکہ جو اعتراض کرنے والے تھے اُن کے لیے اعتراض کی کوئی گنجائش نہ رہے اور نہ کوئی یہ شک کرسکے کہ حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے قرآن پاک کو کہیں سے نقل کیا ہے، یہ بھی یاد رہے کہ جس وقت حضورصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے قرآن پاک کے اللّٰہ کا کلام ہونے کا دعویٰ کیا اور لوگوں تک پہنچایااُس وقت انجیل مقدس کاکوئی بھی نسخہ عربی میں موجو دنہ تھا، یہ سچ ہے کہ قرآن پاک اور انجیل میں کچھ مماثلت پائی جاتی ہے لیکن یہ مما ثلت اس بات کی بنیاد نہیں بن سکتی کہ حضورصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر یہ الزام لگایا جائے کہ انہوں نے قرآن پاک کو انجیل سے نقل کیا ہے۔ کتابوں کے اندر مماثلت کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ بعد میں آنے والے پیغمبروں نے پہلے پیغمبروں سے نقل کیا ہے، یہ مماثلت اصل میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگلی اور پچھلی سب کتابیں اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ کا پیغام ہیں اس لیے ان میں مماثلت ہے اور اُن سب میں توحید کا بنیادی پیغام مشترک ہے۔

سوال: قرآن دوسری نازل شدہ کتابوں سے کیسے مختلف ہے؟

جواب: ر مسلمان کا یہ بنیادی عقیدہ ہے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے سارے نبیوں اور رسولوں پر ایمان رکھے اور جو کچھ اللّٰہ تعالیٰ نے نازل فرمایا اس کو دل سے تسلیم کرے اگر چہ بعض آسمانی کتابیں اب بھی موجود ہیں لیکن اپنے اصلی الفاظ کہ جن میں وہ نازل ہوئی تھیں اُس پر باقی نہ رہیں، یعنی انسانوںنے اس کے اندر تبدیلیاں کر ڈالیں، قرآن پاک ہی اللّٰہ تعالیٰ کا ایسا کلام ہے کہ جس کی حفاظت کا ذمہ اللّٰہ تعالیٰ نے خود لیا ہے اور وہ ہر طرح کی تبدیلی سے محفوظ ہے، اللّٰہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے

ِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ o

(پ۱۴، الحجر:۹)

ترجمۂ کنزالایمان: بیشک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بیشک ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔

حضور اکرمصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے تشریف لانے سے پہلے جو آسمانی کتابیں تھیں جیسا کہ تورات اور انجیل وہ اُس وقت لکھی گئیں جب وہ انبیاء وصال فرما گئے جن پر یہ کتابیں نازل ہوئیں اور اس کے متضاد پورے کا پورا قرآن پاک حضورصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ظاہری زندگی میں مکمل ہوچکا تھا، کھجور کے پتوں پر، چمڑے پراور ہڈیوں پر مسلمانوںنے لکھ لیاتھااور پھر اس کے ساتھ ساتھ صحابۂ کرامعَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکی بہت بڑی تعداد ایسی تھی جنہوں نے قرآن پاک کو حفظ کرلیا تھا اور اس کے جو اصل عربی الفاظ تھے ان کو اپنے سینوں اوراپنے دل و دماغ میں محفوظ کرلیا تھا مزید یہ کہ قر آن پاک کو ہزاروں بلکہ لاکھوں مسلمانوں نے ہر دور میں خوب پڑھا، اس کو یاد کیا۔ حق یہ ہے کہ ہر آنے والے دور میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد قرآن پاک کو حفظ کرتی ہے اور یوں قرآن پاک کے الفاظ کی حفاظت ہوتی رہتی ہے اور کوئی مذہبی یا غیر مذہبی کتاب دنیا میںایسی نہیں ملے گی جس کو اس طرح لکھا گیا ہو، محفوظ کیا گیا ہو اور نسل در نسل وہ ایک قوم کے اندر بہت بڑی تعداد میں حفظ کی جاتی رہی ہو۔

قرآن پاک اس بات کو پیش کرتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے جتنے بھی نبی ہیں وہ اخوت کے لحاظ سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، سارے کے سارے نبوت کے مشن میں ایک جیسے ہیں اور وہ جو بنیادی پیغام تھا وہ سب نے انسانوں تک پہنچایا، خاص کر جو چیز سب میں مشترک رہی وہ یہ ہے کہ صرف اللّٰہ واحد کی عبادت کی طرف لوگوں کو بلایا، لہٰذا اُن سب کے پیغام کا مقصد ایک ہی تھا اور وہ اللّٰہ تعالیٰ کی ذات کی پہچان ہے اگر چہ دوسری کتابیں اسلام کی بنیاد ی مذہبی باتوں میں مماثلت رکھتی ہیں لیکن وہ خاص طبقوں اور خاص لوگوں کے لیے نازل کی گئی تھیں لہٰذا اُن کتابوںکے اصول و قواعد اُنہی لوگوں کے لیے ہیں جن کے لیے وہ کتابیں نازل ہوئیں، دوسری طرف دیکھا جائے تو قرآن پاک ساری انسانیت کے لیے نازل ہوا، کسی خاص قوم کے لیے نازل نہ ہوا ، اللّٰہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ o

(پ۲۲، سبا:۲۸)

ترجمۂ کنزالایمان: اور اے محبوب ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر ایسی رسالت سے جو تمام آدمیوں کو گھیرنے والی ہے خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا لیکن بہت لوگ نہیں جانتے۔

سوال: کیا یہ سچ ہے کہ مسلمان عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اور دوسرے پیغمبروں کو نہیں مانتے؟

جواب: اگر کوئی مسلمان عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام یا کسی بھی نبی پر ایمان نہ رکھے تو وہ مسلمان ہی نہیں، سب مسلمان عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اور دیگر تمام انبیائعَلَیْہِمُ السَّلَام کو مانتے ہیں، یہ مسلمانوں کے ایمان میں بنیادی بات ہے کہ وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے ہر نبی اور ہر رسول کو مانیں، مسلمان عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی بڑی عزت اور بڑا احترام کرتے ہیں اور ان کے دوبارہ تشریف لانے کے منتظر ہیں، قرآن مجید کے مطابق عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو نہ سولی دی گئی نہ اُنہیں قتل کیا گیا بلکہ وہ آسمانوں میں اُٹھالیے گئے۔(1)

مسلمان اس بات کا بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام بہت اونچی شانوںو الے انبیائعَلَیْہِمُ السَّلَام میں سے ہیں، لیکن نہ وہ خدا ہیں نہ خدا کے بیٹے اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی والدہ حضرت مریم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَابڑی صالحہ اور متقیہ خاتون تھیں، قرآن پاک ہمیں بتاتا ہے کہ عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام بغیر باپ کے نشانِ قدرت کے طور پر پیدا ہوئے، اللّٰہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتاہے:

ِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَط خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُo

(پ۳، ال عمران:۵۹)

ترجمۂ کنزالایمان: عیسیٰ کی کہاوت اللّٰہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے اُسے مٹی سے بنایا پھر فرمایا ہوجا وہ فوراً ہوجاتا ہے۔

بہت سارے عیسائی یہ جان کر چونک جاتے ہیں کہ مسلمان حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو اللّٰہ تعالیٰ کے عظیم انبیاء اور رسولوں میں شمار کرتے ہیں، مسلمانوںکو یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے محبت کریں اور کوئی شخص اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اس چیز کو نہ مان لے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام بغیر باپ کے پیدا ہوئے اور مسلمان اِن چیزوں میں اس لیے یقین نہیں رکھتے کہ انہوں نے یہ چیزیں انجیل سے پڑھی ہیں بلکہ قرآنِ پاک ان چیزوں کا عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے بارے میں ذکر کرتا ہے لیکن مسلمان ہمیشہ اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے معجزے ہوں یا دیگر انبیائعَلَیْہِمُ السَّلَام کے معجزے ہوں ، وہ اللّٰہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کی رضا اور اس کے ممکن بنانے سے ظاہر ہوتے ہیں۔

مسلمان اس بات کی سختی سے تردید کرتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ کا کوئی بیٹا ہے اور قرآنِ پاک تاکیداً اس بات کو بیان کرتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کا کوئی بیٹا نہیں ہے۔

اِس بات کی وضاحت کردینا بھی ضروری ہے کہ جب مسلمان انجیل کی کچھ باتوں پر تنقیدکرتے ہیں تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پر حملہ کررہے ہیں بلکہ عیسائیوں کے عقیدے مثلاً تثلیث وغیرہ پرتنقیدکرتے ہیں کیونکہ یہ چیزیںعیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے شروع نہیں کیں، اُن کا اِن چیزوں سے کوئی تعلق نہیں اور جب مسلمان انجیل کا حوالہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللّٰہ تعالیٰ کا کلام ہے لیکن اس میں تبدیلی آگئی اور اس میں بہت سارے مقامات پر انسانوں کے الفاظ ہیں اللّٰہ تعالیٰ کے الفاظ نہیں ہیں، تو اِس تنقید کا مطلب ہر گزیہ نہیں ہے کہ مسلمان عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پر حملہ کرتے ہیں۔

مسلمان یہ یقین رکھتے ہیں کہ آج کے دور میںجو انجیل موجود ہے اس میں کہیں کہیں چھوٹے چھوٹے حصے موجود ہیں جو اللّٰہ تعالیٰ کا اصلی کلام ہیں اور اس میں بہت سارا حصہ ایسا ہے کہ جس میں انسانوں کی دخل اندازی ہوئی اور بہت بڑی تعداد آیات کی وہ ہے جو کہ تبدیل ہوچکی ہیں اور انجیل مقدس کے مختلف ترجمے جو لوگوں کے سامنے موجود ہیں وہ ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں، مسلمان اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ اصل انجیل وہ ہے جو عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی تعلیمات ہیں، وہ نہیں جو بعد کے لوگوں نے مثلاً پول(PAUL) یا دوسرے گرجا گھروں کے لیڈروںنے لکھی بلکہ اسلام دراصل اُسی توحید پر زور دیتا ہے کہ جس کی اشاعت حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے خوب کی اور وہ اللّٰہ تعالیٰ کو ایک ماننا اورفقط ایک اللّٰہ کی عبادت کرناہے۔

سوال: قرآن پاک عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے بارے میں کیا کہتا ہے؟

جواب: عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اُن عظیم الشان رسولوں میں سے ہیں جن کا ذکر نام کے ساتھ قرآن پاک میں موجود ہے، حقیقت یہ ہے کہ قرآن پاک میں ایک سورت کا نام سورئہ مریم ہے، اس سورت میں حضرت مریم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا اور ان کے پیارے بیٹے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پر خوب روشنی ڈالی گئی ہے اور عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کا قرآنِ مقد س میں کئی مختلف مقامات پر ذکر کیا گیا یہاں پر ہم قرآن پاک کی بعض آیات پیش کرتے ہیں کہ جن میں حضرت مریم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا اور انکے بیٹے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کا ذکر ہے

وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ مَرْیَمَ ۘ اِذِ انۡتَبَذَتْ مِنْ اَہۡلِہَا مَکَانًا شَرْقِیًّا ﴿ۙ۱۶﴾فَاتَّخَذَتْ مِنۡ دُوۡنِہِمْ حِجَابًا ۪۟ فَاَرْسَلْنَاۤ اِلَیۡہَا رُوۡحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَرًا سَوِیًّا ﴿۱۷﴾ قَالَتْ اِنِّیۡۤ اَعُوۡذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنۡکَ اِنۡ کُنۡتَ تَقِیًّا ﴿۱۸﴾قَالَ اِنَّمَاۤ اَنَا رَسُوۡلُ رَبِّکِ ٭ۖ لِاَہَبَ لَکِ غُلٰمًا زَکِیًّا ﴿۱۹﴾ قَالَتْ اَنّٰی یَکُوۡنُ لِیۡ غُلٰمٌ وَّ لَمْ یَمْسَسْنِیۡ بَشَرٌ وَّ لَمْ اَکُ بَغِیًّا ﴿۲۰﴾قَالَ کَذٰلِکِ ۚ قَالَ رَبُّکِ ہُوَ عَلَیَّ ہَیِّنٌ ۚ وَ لِنَجْعَلَہٗۤ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَ رَحْمَۃً مِّنَّا ۚ وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا ﴿۲۱﴾فَحَمَلَتْہُ فَانۡتَبَذَتْ بِہٖ مَکَانًا قَصِیًّا ﴿۲۲﴾فَاَجَآءَہَا الْمَخَاضُ اِلٰی جِذْعِ النَّخْلَۃِ ۚ قَالَتْ یٰلَیۡتَنِیۡ مِتُّ قَبْلَ ہٰذَا وَکُنۡتُ نَسْیًا مَّنۡسِیًّا ﴿۲۳﴾فَنَادٰىہَا مِنۡ تَحْتِہَاۤ اَلَّا تَحْزَنِیۡ قَدْ جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیًّا ﴿۲۴﴾ وَ ہُزِّیۡۤ اِلَیۡکِ بِجِذْعِ النَّخْلَۃِ تُسٰقِطْ عَلَیۡکِ رُطَبًا جَنِیًّا ﴿۫۲۵﴾فَکُلِیۡ وَاشْرَبِیۡ وَقَرِّیۡ عَیۡنًا ۚ فَاِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الْبَشَرِ اَحَدًا ۙ فَقُوۡلِیۡۤ اِنِّیۡ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُکَلِّمَ الْیَوْمَ اِنۡسِیًّا ﴿ۚ۲۶﴾فَاَتَتْ بِہٖ قَوْمَہَا تَحْمِلُہٗ ؕ قَالُوۡا یٰمَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْـًٔا فَرِیًّا ﴿۲۷﴾یٰۤاُخْتَ ہٰرُوۡنَ مَا کَانَ اَبُوۡکِ امْرَاَ سَوْءٍ وَّمَا کَانَتْ اُمُّکِ بَغِیًّا ﴿ۚۖ۲۸﴾فَاَشَارَتْ اِلَیۡہِ ؕ قَالُوۡا کَیۡفَ نُکَلِّمُ مَنۡ کَانَ فِی الْمَہۡدِ صَبِیًّا ﴿۲۹﴾قَالَ اِنِّیۡ عَبْدُ اللہِ ؕ۟ اٰتٰىنِیَ الْکِتٰبَ وَجَعَلَنِیۡ نَبِیًّا ﴿ۙ۳۰﴾
وَّ جَعَلَنِیۡ مُبَارَکًا اَیۡنَ مَا کُنۡتُ ۪ وَ اَوْصٰىنِیۡ بِالصَّلٰوۃِ وَ الزَّکٰوۃِ مَا دُمْتُ حَیًّا ﴿۪ۖ۳۱﴾ وَّ بَرًّۢا بِوٰلِدَتِیۡ ۫ وَلَمْ یَجْعَلْنِیۡ جَبَّارًا شَقِیًّا ﴿۳۲﴾وَالسَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدۡتُّ وَ یَوْمَ اَمُوۡتُ وَ یَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا ﴿۳۳﴾ذٰلِکَ عِیۡسَی ابْنُ مَرْیَمَ ۚ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِیۡ فِیۡہِ یَمْتَرُوۡنَ ﴿۳۴﴾مَا کَانَ لِلہِ اَنۡ یَّتَّخِذَ مِنۡ وَّلَدٍ ۙ سُبْحٰنَہٗ ؕ اِذَا قَضٰۤی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوۡلُ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ﴿ؕ۳۵﴾ وَ اِنَّ اللہَ رَبِّیۡ وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوۡہُ ؕ ہٰذَا صِرٰطٌ مُّسْتَقِیۡمٌ ﴿۳۶﴾

ترجمۂ کنزالایمان: اور کتاب میں مریم کو یاد کرو جب اپنے گھر والوں سے پورب (مشرق) کی طرف ایک جگہ الگ گئی تو ان سے ادھر ایک پردہ کرلیا تو اسکی طرف ہم نے اپنا روحانی بھیجا وہ اسکے سامنے ایک تندرست آدمی کے روپ میں ظاہر ہوا بولی میں تجھ سے رحمٰن کی پناہ مانگتی ہوں اگر تجھے خدا کا ڈر ہے بولا میں تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں کہ میں تجھے ایک ستھرا بیٹا دوں بولی میرے لڑکا کہاں سے ہوگا مجھے تو نہ کسی آدمی نے ہاتھ لگایا نہ میں بدکار ہوںکہا یونہی ہے تیرے رب نے فرمایا ہے کہ یہ مجھے آسان ہے اور اس لئے کہ ہم اسے لوگوں کے واسطے نشانی کریں اور اپنی طرف سے ایک رحمت اور یہ کام ٹھہرچکا ہے اب مر یم نے اسے پیٹ میں لیا پھر اسے لئے ہوئے ایک دور جگہ چلی گئی پھر اسے جننے کا درد ایک کھجور کی جڑ میں لے آیا، بولی ہائے کسی طرح میں اس سے پہلے مَرگئی ہوتی اور بھولی بسری ہوجاتی تو اسے اس کے تلے سے پکارا کہ غم نہ کھا بے شک تیرے رب نے تیرے نیچے ایک نہر بہادی ہے اور کھجور کی جڑ پکڑ کر اپنی طرف ہلا تجھ پر تازی پکّی کھجوریں گریں گی تو کھا اور پی اور آنکھ ٹھنڈی رکھ پھر اگر تو کسی آدمی کو دیکھے تو کہہ دینا میں نے آج رحمٰن کا روزہ مانا ہے تو آج ہرگز کسی آدمی سے بات نہ کرو ں گی تو اسے گود میں لئے اپنی قوم کے پاس آئی، بولے اے مریم بے شک تو نے بہت بڑی بات کی ، اے ہارون کی بہن تیرا باپ برا آدمی نہ تھا اور نہ تیری ماں بدکار اس پر مریم نے بچّے کی طرف اشارہ کیا وہ بولے ہم کیسے بات کریں اس سے جو پالنے میں بچّہ ہے بچّہ نے فرمایا میں ہوں اللّٰہ کا بندہ اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے غیب کی خبریں بتانے والا (نبی) کیااور اس نے مجھے مبارک کیا میں کہیں ہوں اور مجھے نماز و زکوٰۃ کی تاکید فرمائی جب تک جیوں اور اپنی ماں سے اچھا سلوک کرنے والا اور مجھے زبردست بدبخت نہ کیااور وہی سلامتی مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن زندہ اٹھایا جاؤں گا یہ ہے عیسٰی مریم کا بیٹا سچی بات جس میں شک کرتے ہیں اللّٰہ کو لائق نہیں کہ کسی کو اپنا بچّہ ٹھہرائے پاکی ہے اس کو جب کسی کام کا حکم فرماتا ہے تو یونہی کہ اس سے فرماتا ہے ہوجا وہ فوراً ہو جاتا ہے اور عیسٰی نے کہا بے شک اللّٰہ رب ہے میرا اورتمہارا تو اس کی بندگی کرو یہ راہ سیدھی ہے۔

( پ۱۶، مریم : ۱۶ تا ۳۶)