حضرت سیدنا محمد

حضرت محمدصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اعلانِ نبوت فرمایا اور لوگوں کو ایک خدا کی عبادت کی طرف بُلایا، بہت سارے قبائل نے آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سخت مخالفت کی لیکن بعض اَفراد نے حضرت محمدصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی دعوت ِتوحید کو قبول کرلیا، یہ لوگ ایمان لائے اور ان ہی کو صحابۂ کرام رِضْوَانُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کے نام سے یاد کیاجاتا ہے، یہ حضورصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو صادِق و امین کی حیثیت سے جانتے تھے، حضرت محمدصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمجو کہ چالیس سال کے باوقار اور باعزت انسان تھے اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے سب انسانوںکو مرد ہوں یا عورتیں، غلام ہوں یا آقا اُن سب کی شان کے مطابق حقوق عطاکیے ہیں، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے سب سے زیادہ ڈرتا ہے۔

حضرت محمدصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا پیغام ایسا مضبوط اور دلوں کو بدل دینے والا تھا کہ عرب کے جنگجو قبیلے اور قتل و غارَت اور بددیانتی میں مشہورقبیلوں کے سرداراِس پیغام کو قبول کرنے لگے، یہ وہ پیغام تھا کہ جس کا نام ’’اسلام‘‘ ہے اور لفظ اسلام کا معنی ہے: ’’ اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جھک جانا۔ ‘‘

سوال: حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کون ہیں؟

جواب: حضرت محمدصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمایک شریف اور باعزت گھرانے کے فرد ہیں، وہ اَخلاقِ حسنہ کا بہترین نمونہ ہیں، اللّٰہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں ان کی تعریف فرمائی

وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ o(پ۲۹، القلم:۴)

ترجمۂ کنزالایمان:

اور بے شک تمہاری خوبوبڑی شان کی ہے۔

آپصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے دشمنوں نے بھی آپصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اَخلاقِ حسنہ کی تصدیق کی، ابوجہل جو کہ اسلام کا سخت ترین دشمن تھا اُس نے ایک دن کہا: اے محمد! (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم )میں یہ نہیں کہتاکہ آپ جھوٹے ہیں، میں صرف اس کا انکار کرتا ہوں جو آپ لائے ہیں اور جس کی طرف لوگوں کو
دعوت دیتے ہیں۔(1)

آپصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے صحابہ رِضْوَانُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن نے آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے اَخلاقِ حسنہ کو اِن الفاظ میں بیان کیا: ’’آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا رَوَیہ سخت نہیں تھا، آپ نے کبھی مجمع میں اونچی آواز سے بات نہیں کی اور کبھی فحش کلامی نہیں کی، آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے کبھی بُرائی کا بدلہ بُرائی سے
نہ لیا بلکہ آپصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہمیشہ معاف فرمانے والے تھے، آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو تکلیف دی توآپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے کبھی غصہ نہیں فرمایا اور نہ کبھی اس کا بدلہ لیا، آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمصرف اُسی وقت ناراض ہوتے جب لوگ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی حدود کو توڑتے۔ (2)

حضورصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہمیشہ آسان بات کو اپنی امت کے لیے اختیار فرماتے لیکن اگر وہ گناہ کی بات ہوتی تو آپ اس سے سب سے زیادہ دور ہوتے۔(1)

جب آ پ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماپنے گھر تشریف لاتے تو عام شخص کی طرح ہوتے یعنی اپنے کپڑے خود دھولیتے، بکری دوہ لیتے اور اپنے دیگر کام خود کرلیتے۔ (2)

چھوٹی عمر ہی سے آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو فکر کرنے والے انسان کی حیثیت سے دیکھا گیا، عرب کے لوگوں نے آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو ’’ اَلصَّادِق ‘‘ اور ’’ اَ لْاَمِیْن‘‘ کا خطاب دیا جس کا معنی ’’ سچا ‘‘ اور ’’ امانت دار ‘‘ ہے، ہر وہ کام جو آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کیا، ہر وہ لفظ جو آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے منہ سے نکلا، ہر وہ فکر جوآپصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ذہن میں آئی، آپصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان سب میں ہمیشہ سچے تھے، اہل عرب نے دیکھا کہ ان کا ہر عمل بامقصد ہوتا ہے، جب کچھ کہنے کا موقع نہ ہو تا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمخاموش رہتے لیکن جب بولتے تومخلصانہ، حکمت بھری اور دلائل و براہین سے پُر گفتگو فرماتے، ہمیشہ کسی مسئلے پر روشنی ڈالتے اور یہی وہ بولنا ہے جس بولنے کی اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک قدر ہے، لوگوں نے آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو بڑا مضبوط ، بھائی چارگی سے بھرپور اور مخلص انسان پایا، آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسنجیدہ اور مخلص کردار والے ہونے کے ساتھ ساتھ ایسا مزاج رکھتے تھے کہ دوسرے لوگ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی صحبت میں امن، حفاظت، آرام، خوشی اور سُکھ محسوس کرتے، آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے چہرئہ مبارکہ پر ہمیشہ روشنی بکھیرتی ہوئی خوبصورت ترین مسکراہٹ ہوتی۔

حضرت محمدصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمبہت خوبصورت انسان تھے جیسا کہ صحابۂ کرام رِضْوَانُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن نے آپصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے حسن کو یوں بیان کیا: آپصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا قد مبارک عمومی قد سے تھوڑا زیادہ تھا، تعجب کی بات یہ ہے کہ مجمع میں آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمان سے بھی دراز قد نظر آتے جو درحقیقت آپصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے لمبا قد رکھتے تھے، آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی جلد مبارک کا رنگ گورا اور سُرخی مائل تھالیکن بہت زیادہ سفید بھی نہیں تھا، آپصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے بال مبارک سیاہ اورخمیدہ تھے(اتنے گھنگریالے نہ تھے جس سے دائرہ کی صورت بنتی نظر آتی ہو)، کان کی لو اور کندھوں کے درمیان بال مبارک رہتے، آپصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سر کے بیچ سے مانگ نکالتے، آپصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا ظاہری جسم مبارک ایک طاقتور مضبوط مرد کی طرح نظر آتا تھا، آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے کندھے مبارک چوڑے تھے اور ان کے درمیان پیٹھ کی طرف مہر نبوت تھی، آپصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا پیٹ مبارک آپصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے سینے سے کبھی آگے نہیں آیا، آپصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا چہرۂ مبارکہ ایسے روشن رہتا گویا کہ سورج آپ کے چہرے سے چمکتے ہوئے گزررہا ہے، جب لوگ آپصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی بارگاہ میں حاضر ہوتے تو آپصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے حسن وجمال کا ان پر رُعب پڑ جاتا، جب پہلی بار دیکھتے تویہ کہنے پر مجبور ہوجاتے کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے کا نہیں ہے۔