پہلے کلمے کی مشق |
اذکارِ نماز: التحیّات ، سورۃ الفاتحہ، 3 چھوٹی آیات |
نماز کی رکعتوں کا بیان، شرائط، فرائض اور نمازتوڑنے والی باتوں کا بیان |
سلام و مصافحہ و معانقہ کی سنتیں و آداب |
غیبت |
سچ بولنا |
گالی دینا |
حضرت محمدصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سچے اور آخری نبی ہیں |
مدنی قاعدہ / اذکار نماز
(پہلا کلمہ ’’طَیِّب‘‘ کہلاتا ہے۔ اور ’’طَیِّب‘‘ کا مطلب ہے: ’’پاک‘‘)
’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسْوُلُ اللہِ‘‘
ترجمہ: اللہ کے علاوہ کوئی عِبادت کے لائق نہیں، حضرت محمدصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اللہ کے رَسول ہیں۔
**********
’’نَماز کی رکعتوں کی تعداد‘‘
5 نمازوں کی فرض، واجب سنّت مؤکّدہ، سنت غیر مؤکّدہ اور نفل رکعتیں:
نمبر شمار |
نماز |
فرض رکعتیں |
سنت مؤکدہ |
سنت غیر مؤکدہ |
نفل |
واجب |
ٹوٹل |
01 |
فجر |
2 |
2 |
۔۔۔ |
۔۔ |
۔۔۔ |
4 |
02 |
ظہر |
4 |
6 |
۔۔۔ |
2 |
۔۔۔ |
12 |
03 |
عصر |
4 |
۔۔۔ |
4 |
۔۔ |
۔۔۔ |
8 |
04 |
مغرب |
3 |
2 |
۔۔۔ |
2 |
۔۔۔ |
7 |
05 |
عشا |
4 |
2 |
4 |
4 |
3(وِتْر) |
17 |
(ماخوذ از ہمارا اسلام، ص26۔27)
یادرہے! فرض اور واجب سب سے اَہَم نمازیں ہیں، چھوڑیں گے تو گناہ ملے گا۔سنّتِ مؤکّدہ پڑھنا بھی ضروری ہے۔
نَماز کی شرائط کا بیان
رحمت والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا فرمان ہے: جس نے ایسا وضو کیا جیسا کرنے کا حکم ہے اور ایسی نَماز پڑھی جیسی پڑھنے کا حکم ہے، تو جو کچھ پہلے کیا ہے معاف کردیا جائے گا۔
(نسائی، کتاب الطہارۃ، باب ثواب من توضأ کما امر، ص32، حدیث:144)
نوٹ:کوئی بھی نَماز پڑھنےسے پہلے اِن 6 چیزوں کا پورا ہونا ضروری ہے، ورنہ نَماز شُروع ہی نہیں ہوگی
نمبر شمار |
شرط |
تفصیل |
01 |
طہارت |
نَماز پڑھنے والے کا (1) بدن (2)لباس اور (3) نَماز پڑھنے کی جگہ ناپاکی (گندگی) سےپاک ہو۔ نَماز پڑھنے والے پر غسل فرض نہ ہو اور وہ باوضو ہو۔ |
02 |
ستر عورت |
مَرد کا ناف کے نیچےسےگھٹنے سمیت سارا حصہ اور عورت کا ہتھیلیوں، پاؤں کے تلووں اور چہرے کے علاوہ اپنا سارا جسم چھپانا۔ (عورت کے ہاتھ کلائیوں تک اور پیر ٹخنوں تک ظاہر ہوں تب بھی نماز ہوجائے گی) |
03 |
اِستقبالِ قبلہ |
نَماز میں خانۂ کعبہ کی طرف سینہ کرکے کھڑا ہونا۔ |
04 |
وقت |
جو نَماز پڑھنی ہے اس کا وقت ہونا ضروری ہے۔ اگر وقت سے پہلے نَماز پڑھی تو ادا نہیں ہوگی بلکہ وقت میں دوبارہ پڑھنی ہوگی۔ نمازِ فجر کو وقت کے اندر مکمل کرنا بھی ضروری ہے۔ جان بوجھ کر نَماز کا وقت گزار دینا اور نَماز ادا نہ کرنا سخت گناہ ہے۔ |
05 |
نیّت |
’’نیّت‘‘ دل کے پکے ارادے کو کہتے ہیں۔ کسی بھی نَماز کو ادا کرنے کےلئے پہلے اس نَماز کا دل میں پکا ارادہ کرنا ضروری ہے۔اگر زبان سے بھی کہہ لےکہ مثلاً: ’’میں فجر کی2رکعت فرض نَماز ادا کرنے کی نیت کرتا ہوں‘‘ تو زیادہ اچھا ہے۔ |
06 |
تکبیرِ تحریمہ |
یعنی نماز شروع کرنا، ’’اَللہُ اَکْبَر‘‘ کہہ کر نَماز شروع کریں گے۔ |
(ماخوذ از ہمارا اسلام، ص67۔124۔126۔127۔131)
نَماز کے فرائض کا بیان
پیارےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا فرمان ہے: جس نے 2 رکعت نَماز ادا کی اور اس میں کوئی غلطی نہیں کی، اللہ پاک اس کے پچھلے چھوٹے گناہ معاف فرمادے گا۔ (مسند احمد، مسند الانصار، 8/162، حدیث:21749)
نوٹ: نَماز کے دوران ان 7 چیزوں کا کرنا ضروری ہے، ورنہ نَماز نہیں ہوگی
نمبر شمار |
فرائض |
تفصیل |
01 |
تکبیرِ تحریمہ |
یعنی نماز شروع کرنا ’’اَللہُ اَکْبَر‘‘ کہہ کر نَماز شروع کریں گے۔ (تکبیر تحریمہ ویسے تو نمازکی شرط ہے، لیکن چونکہ یہ نَماز کے ساتھ ملی ہوئی ہے، اس لئے اسے فرض بھی کہا گیاہے) |
02 |
قِیام |
قرا ءت میں بالکل سیدھا کھڑا ہونا یا کم از کم ایسے کھڑا ہونا کہ ہاتھ بڑھائے تو گھٹنوں تک نہ پہنچیں |
03 |
قِراءَت |
جتنا قرآن پڑھنا لازِم ہے اُتنا قرآن پڑھنا۔ سورۃُ الفاتحہ مکمّل پڑھیں گے اور اس کے بعد تین چھوٹی آیات یا ایک بڑی آیت جو تین چھوٹی آیات کے برابر ہو یا کوئی ایک چھوٹی سورت پڑھیں گے۔ (ہرفرض نَماز کی تیسری، اورچوتھی رکعت میں قراء ت کرنا ضروری نہیں) |
04 |
رُکوع |
یعنی کم از کم اتنا جھکنا کہ ہاتھ بڑھائے تو گھٹنوں تک پہنچ جائیں۔ |
05 |
سُجود |
یعنی پیشانی کو زمین پر اچھی طرح جمانا۔ اس کے علاوہ ہاتھ ،پاؤں زمین پر لگیں گے، ناک کی بیچ کی ہڈّی لگے گی اور پیر کی تین تین انگلیوں کے پیچھے والا اُبھرا ہوا حصّہ بھی زمین پر لگے گا۔(عورتیں اپنے دونوں پا ؤں سیدھی طرف نکالیں گی) ہر رکعت کے 2 سجدے فرض ہیں۔ |
06 |
قعدۂ اخیرہ |
یعنی نَماز کی سب رکعتیں پوری ہونے کی بعد ’’اَلتَّحِیّات‘‘ کے لیے بیٹھنا۔ مکمل’’اَلتَّحِیّات‘‘ پڑھنا لازم ہے۔ |
07 |
خُروجِ بِصُنْعِہٖ |
یعنی لفظِ ’’سلام‘‘کے ذریعے نماز کو ختم کرنا۔ |
(ماخوذ از ہمارا اسلام، ص133۔134۔136۔137۔138)
نَماز توڑنے والی چیزوں کا بیان
مدینے والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: نَماز میں لوگوں کا کوئی بھی بات کرنا صحیح نہیں، نَماز تو تسبیح، تکبیر اور قرآن کی تلاوت کرنے کانام ہے۔ (مسلم، کتاب المساجد…الخ، باب تحریم الکلام…الخ، ص 215، حدیث: 1199)
وہ چیزیں جن سے نَماز ٹوٹ جاتی ہے:
n بات چیت کرنا nسلام کرنا nسلام کا جواب دینا nدرد یا مصیبت کی وجہ سے ’’آہ‘‘ ’’اُوہ‘‘ یا ’’اُف‘‘ وغیرہ کہنا nقرآنِ کریم میں دیکھ کر تلاوت کرنا nعَمَلِ کثیر یعنی نَماز میں کوئی ایسا کام کرنا کہ دیکھنے والا سمجھے کہ یہ نَماز نہیں پڑھ رہا (عام طور پر اس طرح کے کام سے نماز ٹوٹ جاتی ہے) nنَماز میں ایسی چیز کھانا یا پینا جو پہلے سے منہ میں نہ ہو n3 قدم چلنا nقہقہہ مار کر ہنسنا کہ آس پاس والوں تک آواز پہنچے nایک رُکن یعنی قیام یا رُکوع وغیرہ میں 3 بار کھجانا n’’اَللہُ اَکْبَر‘‘ کے ’’اَلِف‘‘ کو لمبا کرنا یعنی’’ آللہُ ‘‘ کہنایا ’’اَکْبَر‘‘ کے ’’ب‘‘ کے بعد ’’اَلِف‘‘ بڑھا دینا یعنی ’’اَکْبَار‘‘ کہنا۔ nقرآنِ کریم یا اذکارِ نَماز(یعنی جو کچھ نماز میں پڑھا جاتا ہے) اس میں ایسی غلطی کرنا جس سے معنی بگڑ جائیں۔ مثلاً: ’’سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْعَظِیْم‘‘ میں ’’عَظِیْم‘‘ کو ’’عَزِیْم‘‘ کہنا۔ (ماخوذ از ہمارا اسلام، ص215 تا 216)
**********
’’اِسلام‘‘ کی خوبیاں
پیارے اسلامی بھائیو! دنیا کے ہر ملک، ہر مذہب اور ہر قوم میں ملاقات کے وقت کچھ نہ کچھ خاص الفاظ بولے جاتے ہیں۔ ’’اِسلام‘‘ کے آنے سے پہلے ’’عَرَب کے لوگ‘‘ ملاقات کے وقت کہتے تھے: ’’حَیَّاکَ اللہُ۔یعنیاللہ تجھے زندہ رکھے‘‘ اِسی طرح کسی بادشاہ سے ملاقات کے وقت کہتے تھے: ’’اَنْعَمَ صَبَاحًا‘‘ یعنی خداآپ کی صبح اچّھی کرے۔ جبکہ مختلف مذاہب والے اس طرح کے انداز سے سلام کرتے تھے:۔ pکوئی مُنہ پر ہاتھ رکھ دیتے pکوئی ایک دوسرے کو اُنگلیوں سے اشارہ کرتے pکوئی جھک جاتے pجبکہ کوئی کلمہ کی انگلی اٹھادیتے تھے۔
آج بھی دنیا میں ملاقات کے وقت مختلف قسم کے الفاظ بولے جاتے اور طرح طرح کے انداز اپنائے جاتے ہیں۔ دیگر مذاہِب کی طرح اللہ کے پسندیدہ دین ’’اِسلام‘‘ میں بھی ملاقات کے وقت کچھ خاص الفاظ بولے جاتے ہیں۔ چنانچہ جب کوئی مسلمان دوسرے سے ملتا ہے تو کہتا ہے: ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہ‘‘ یعنی اللہ پاک آپ کو سلامَتی، رَحمت اور بَرَکت عطا فرمائے۔ اور سلام کرتے وقت اُسے یہ نیّت کرنے کی ترغیب دلائی جاتی ہے کہ’’تمہاری جان، مال، عزّت سب محفوظ ہے، میں تمہیں کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا‘‘۔
’’اِسلامی سلام‘‘ سب سے خوبصورت ہے:
اگر ہم غور کریں تو یہ ’’اِسلامی سلام‘‘ 3باتوں کی وجہ سے بقیہ سب طریقوں میں سب سے خوبصورت ہے:۔ (1)’’منہ پر ہاتھ رکھنا‘‘ ’’انگلیوں سے اشارہ کرنا‘‘ ’’جھک جانا‘‘ ’’کلمہ کی انگلی اٹھادینا‘‘ وغیرہ کا کوئی خاص مطلب یا مقصد سمجھ نہیں آتا، جبکہ ’’اِسلامی سلام‘‘ میں ایک خاص نیّت اور بہت پیاری دُعا ہے۔ (2)’’زندَگی کی دعا دینا‘‘یا ’’صبح و شام اچّھی ہونے کی دعا دینا‘‘ وغیرہ میں لمبی زندگی ملنے یا صرف صبح و شام اچّھی ہونے کی دعا ہے۔ جبکہ ’’اِسلامی سلام‘‘ میں سلامَتی، رَحمت اور بَرَکت کی دعا ہے جو سب سے بہترین ہے۔ کیونکہ یہ ممکن ہے کہ کسی کی زندگی لمبی تو ہو مگر آزمائشوں سے بھر پور ہو۔ اِسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ صبح و شام بظاہر تو اچّھی اور خوشیوں بھری نظر آرہی ہو لیکن اللہ پاک کی نافرمانیوں کی وجہ سے رَحمت اور بَرَکت سے خالی ہو۔ اِسی طرح ان دعاؤں میں انسان کے دنیا سے جانے کے بعد کے لئے کوئی دعا نہیں ہے۔ جبکہ ’’اِسلامی سلام‘‘ میں جو سلامَتی، رَحمت اور بَرَکت کی دعا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ تم دنیا میں، مرتے وقت، قبر میں اور آخرت میں ہر جگہ آفتوں ، بلاؤں، مصیبتوں اور عذابات سے سلامت رہو، رَحمتِ الٰہی کے سائے میں رہو اور اِس سلامَتی اور رَحمت میں مزیدبَرَکت ہو۔ (3) اگر کوئی انسان کسی کو فائدہ پہنچانے کا وعدہ کرے تو ہوسکتا ہے کہ وہ فائدہ پہنچانے میں کامیاب ہوجائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ناکام ہوجائے۔کیونکہ وقت ایک جیسا نہیں رہتا اور انسان کے حالات خراب بھی ہوجاتے ہیں۔ لیکن جب کوئی یہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ کسی کو نقصان نہیں پہنچائے گاتو بہت زیادہ حد تک ممکن ہے کہ وہ اپنا وعدہ پورا کرجائے، کیونکہ نقصان پہنچانےسے بچنے کےلئے اسے کچھ کرنا نہیں پڑے گا اور اس کے اچھے یا برے حالات بھی اس وعدے کو پورا کرنے میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔ ’’اِسلامی سلام‘‘ میں یہی نیّت ہوتی ہے کہ میں تمہاری جان، مال اور عزّت وغیرہ کسی چیز کو نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ یہی وجہ ہے کہ ’’اِسلامی سلام‘‘ بقیہ سلام کے طریقوں میں سب سے اچّھا ہے۔
(ماخوذ ازتفسیر کبیر، 4/161-163۔ تفسیر نعیمی، 5/274)
سلام کرنے، ہاتھ ملانے اور گلے ملنے کی سنتیں و آداب
e کسی سے ملاقات ہو تو کہئے: ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہ‘‘ دوسرا بھی کہے: ’’ ’’وَعَلَیْکُمُ السَّلَام وَرَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہ‘‘ اس طرح دونوں کو 30، 30 نیکیاں ملیں گی eپہلے سلام کیا جائے، اُس کے بعد بات کی جائے eچھوٹا بڑے کو سلام کرے، چلنے والا بیٹھے ہوئے کوسلام کرے، تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کریں eاگر کوئی مسلمان ملاقات کے وقت سلام کرے تو سلام کا جواب دینا واجب ہے eجو شخص درس دینے، سبق پڑھانےیا سبق یاد کرنے میں مصروف ہو اُسے سلام نہ کیا جائے eاِستنجا خانہ یا غسل خانہ میں موجود شخص کو بھی سلام نہ کیا جائے eملاقات کے وقت مُصافَحہ کرنا یعنی ہاتھ ملانا بھی سنّت ہے eہاتھ ملانے میں یہ اِحتیاط کی جائے کہ دونوں کے ہاتھوں کی ہتھیلیاں آپس میں ملیں، درمیان میں کوئی چیز نہ ہو eدونوں ہاتھوں سے مُصافَحہ کیا جائے eجتنی بار ملاقات ہو ہر بار مُصافَحہ کرنا (یعنی ہاتھ ملانا) ثواب کا کام ہے eوالد صاحِب، عالِمِ دین، پیر صاحب یا کسی بزرگ سے ہاتھ ملاتے وقت اُن کا ہاتھ چوم لینا بھی ثواب کا کام ہے eخوشی کے موقع پر مُعانَقہ کرنا یعنی گلے ملنا سنّت ہے(کم عمر لڑکوں سے گلے نہ ملیں)e عید کے موقع پر گلے مل سکتے ہیں۔
(ماخوذ از سنتیں اور آداب، ص 22 تا 28)
e (مسلمان عورت کا مسلمان عورت کو یااپنے باپ یابھائی یا دادا کویا اپنے شوہر کو سلام کرنا) جائز ہے۔
e ( اسی طرح لڑکے اور بھائی کا اپنی ماں اور بہن کو یا شوہر کا اپنی بیوی کو سلام کرنا) جائز ہے۔
(فتاوی رضویہ، ۲۲/۴۱۰)
e اگر عورت اجنبیہ (جس سے پردے کا حکم ہے، اُس)نے مرد کو سلام کیا اور وہ بوڑھی ہو تو اس طرح جواب دے کہ وہ بھی سنے اور وہ جوان ہو تو اس طرح جواب دے کہ وہ نہ سنے۔
(بہارِ شریعت، ۳/۴۶۱)
e (جس عورت سے پردے کا حکم ہے، اُس)سے مُصافحہ(یعنی ہاتھ ملانا)جائز نہیں۔
(بہارِ شریعت، ۳/۴۴۶)
e حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عورتوں سے ہاتھ نہ ملاتے تھے۔(بہارِ شریعت، ۳/۴۴۶ملخصاً)
e عورتوں کا آپس مىں ہاتھ ملانا جائز ہے۔)جنتی زیور،ص۹۹ بتصرف(
e عورتیں عورتوں سے (گلے مل سکتی ہیں۔جبکہ فتنہ نہ ہو)۔ (مراٰۃ المناجیح، ۶/۳۵۴)
**********
’’گالی‘‘ کی تباہ کاری
گالی کی تعریف:
ایسی بات کرنا جس سے کسی بھی انسان کی عزّت خراب ہو، گالی کہلاتا ہے۔
(ماخوذ از عمدۃ القاری،کتاب الایمان،باب خوف المومن…الخ، 1/433، تحت الحدیث:48)
اللہ پاک کا ارشاد:
(ترجمہTranslation:) بُری بات کا اعلان کرنا اللہ پسند نہیں کرتا مگر مظلوم سے اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔ (ترجمۂ کنز العرفان) (پ6، النساء:148)
عُلَما نے اس آیت کا ایک مطلب یہ بیان کیا ہے کہ بُری بات کے اِعلان سے مراد ’’گالی دینا‘‘ ہے۔ یعنی اللہ پاک اِس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو گالی دے۔ (صراط الجنان، 2/339)
گالی کے متعلق 2احادیث:
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا فرمان ہے: مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اسے گالی دیتا ہے۔ (شرح السنہ، کتاب البر والصلۃ، باب الستر، 6/489، حدیث:3412)
ایک مرتبہ ارشاد فرمایا: مسلمان کو گالی دینا ’’فِسْق(یعنی اللہ ورسول کی نافرمانی والا کام) ہے‘‘۔
(بخاری، کتاب الفتن،باب قول النبیﷺ: لاترجعوا بعدی …الخ، 4/434، حدیث:7076)
گالی کی مثالیں:
اگر کسی کو کہا او کتے او سؤر اوگدھے تو یہ الفاظ گالی ہیں۔
(مراٰۃ المناجیح،۵/۳۲۶ بتغير)
گالی کا حکم:
(1): مسلمان کو بِلاوجہِ شَرْعِی گالی دینا سَخْت حرام(اور گناہ) ہے۔ (فتاوی رضویہ،6/538ملتقطاً)
گالی کے نقصانات
پیارے اسلامی بھائیو! cگالی دینے میں انسان کا دینی اور دنیاوی ہر طرح کا نقصان ہے cگالی دینا حرام ا ور اللہ ورسول کی نافرمانی والا کام ہے cگالی دینے والا کبھی ایک سچا مسلمان اور اچھا شہری نہیں سمجھا جاتا cگالی دینا درحقیقت اپنے مسلمان بھائی پر ظلم کرنا ہے cگالی سے معاشرے کا اَمن و امان تباہ ہوتا اور لڑائی جھگڑوں میں اِضافہ ہوتا ہے cگالی کی وجہ سے دشمنیاں بڑھتیں اور بعض اوقات تو قتل تک بات پہنچ جاتی ہےcگالی کی وجہ سے دوست بلکہ خونی رشتہ دار بھی دور ہوجاتے ہیں cگالی سے انسان جھوٹ، غیبت، بہتان اور دل آزاری جیسے بڑے گناہوں کا بھی شکار ہوجاتا ہے cگالی سے اِحترامِ مسلم اور ہمدردیٔ مسلم کا خاتمہ ہوتا ہے cگالی سے انسان کی صلاحیتوں کا خون ہوتا اور وہ ترقّی سے دور ہوجاتا ہے cگالی سے اپنی عزّت اور لوگوں کی ہمدردیاں دونوں ختم ہوجاتی ہیں cگالی سے ابتداءً انسان کی زبان گندی ہوتی ہے اور بعد میں اس کا وجود ہی گندہ سمجھا جانے لگتا ہے c گالی دینے والا موت کے بعد بھی اچّھے لفظوں میں یاد نہیں کیا جاتا۔
گالی دینے کی عادت ہو تو کیسے ختم کی جائے؟
xاپنے غصّے پر قابو پانا سیکھئے اور غصّے کا علاج کیجئے xبُرے دوستوں کی صحبت چھوڑ کر عاشقانِ رسول کی صحبت اِختِیار کیجئے xعلمِ دین حاصل کیجئے اور غصّے کے دینی و دنیاوی نقصانات اپنے پیشِ نظر رکھئے xاپنے اندر خوفِ خدا پیدا کیجئے، اِس کے لئے بُزُرگوں کے واقعات کا مُطالَعہ کیجئے xکم بولنے کی عادت بنالیجئے، کیونکہ فضول گوئی بسا اوقات گالی تک لے جاتی ہے xاِحتِرامِ مسلم کا جذبہ پیدا کیجئے اور جتنا ہوسکے مسلمانوں کے ساتھ بھلائی اور ہمدردی سے پیش آئیے xاگر کوئی آپ کو اُ کسائے یا لڑائی جھگڑا کرے تو بھڑکنے کے بجائے صبْر کیجئے xزیادہ تر دُرود و سلام پڑھنے کا معمول بنالیجئے، اِنْ شَاء اللہ زبان اور دل دونوں کو ایمانی تازگی نصیب ہوگی۔
نوٹ: گالی سے بچنے اور زبان کی حفاظت کا ذہن بنانے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی یہ کتابیں ’’خاموش شہزادہ‘‘ ’’میٹھے بول‘‘ ’’ایک چپ سو سکھ‘‘ اور ’’جنت کی دو چابیاں‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔
**********
’’غیبت‘‘ کی تباہ کاریاں
غیبت کی تعریف:
کوئی شخص موجود نہ ہو، اُس کے بارے میں ایسی بات کہنا کہ اگر وہ سُن لے یا اُس کو پتہ چل جائے تو اُسے بُرا لگے، غیبت کہلاتا ہے۔ (غیبت کی تباہ کاریاں، ص 438ملخصاً) غیبت سخت حرام اور بڑا گناہ ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ غیبت تب ہوگی جب وہ بات اُس میں موجود ہو ورنہ یہ بہتان ہو گا جو غیبت سےبھی بڑا گناہ ہے۔
اللہ پاک کا ارشاد:
(ترجمہTranslation:) اورایک دوسرے کی غیبت نہ کرو، کیا تم میں کوئی پسند کرے گا کہ اپنے مَرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں ناپسند ہوگا۔ (ترجمۂ کنز العرفان ) (پ26، الحجرات:12)
عُلَما فرماتے ہیں: مسلمان بھائی کی غیبت کرنا تمہیں پسند نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ مسلمان کو پیٹھ پیچھے بُرا کہنا اُس کے مَرنےکے بعد اُس کا گوشت کھانے کی طرح ہے، کہ جس طرح کسی کا گوشت کاٹنے سے اُسے تکلیف پہنچتی ہے اِسی طرح اس کے بارے میں بُری بات کہنے سے بھی اُس کے دل کو تکلیف پہنچتی ہے۔ (صراط الجنان، 9/439ملخصاً)
غیبت کے بارے میں 2 احادیث:
(1)آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ایک مرتبہ صحابہ سے پوچھا: غیبت کسے کہتے ہیں؟ اُنہوں نے عرض کی: اللہ پاک اور اُس کا رَسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: تمہارا اپنے بھائی کا اِس طرح ذِکْرکرنا جو اُسے بُرالگے غیبت ہے۔ کسی نے عرض کی: اگر وہ برائی اس میں موجود ہو تو؟ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اگر وہ بُرائی اُس میں موجود ہو تو تبھی غیبت ہوگی۔ اور بُرائی موجود نہ ہونے کی صورت میں یہ بُہتان (جھوٹا اِلزام)کہلائے گا(جو غیبت سے بھی بڑا گناہ ہے۔)۔ (مسلم ، کتاب البر والصلۃ، باب تحریم الغیبۃ، ص 1071، حدیث: 6593)
(2)ایک مرتبہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:میں معراج کی رات ایسی قوم کے پاس سے گزرا جو اپنے چہروں اور سینوں کو تانبے کے ناخُنوں سے نوچ رہے تھے۔ میں نے پوچھا: جبریل! یہ کون لوگ ہیں؟ کہا: یہ لوگوں کا گوشت کھاتے (یعنی غیبت کرتے) اور ان کی عزت خراب کرتے تھے۔
(ابو داود، کتاب الادب، باب فی الغیبۃ، 4/353، حدیث: 4878)
غیبت کی چند مثالیں:
کسی کی برائی بیان کرنےکے لئے کہنا:۔ eسوتا بہت ہےeہر وقت کھاتا رہتا ہے eبولتا بہت ہےeکپڑوں سے بدبو آتی ہے eدھوکے باز ہےeسود کھانے والا ہے eکام چور ہےeمیری ترقی سے جلتا ہے eنَماز نہیں پڑھتا eغصے کا بہت تیز ہے eگھر والوں پر ظلم کرتا ہے eرات دیر تک گھر سے باہر رہتا ہے eگھر کا ایک کام نہیں کرتا eاس کے پیٹ میں کوئی بات نہیں رہتی eگھٹیا خاندان سے تعلق ہے۔
یاد رہے! اگر کسی کی اِصلاح کی نیّت سے، صرف اُس شخص کے بڑے کے سامنے اکیلے میں اُس شخص کی بُرائی کی تو یہ گناہ نہیں، اِس طرح کی اور صورتیں بھی ہو سکتی ہیں۔
آدمی غیبت کیوں کرتا ہے؟
’’غیبت کی تباہ کاریاں‘‘ صفحہ ۳۲۳ پر ہے: حضرتِ سیِّدنا عیسیٰ رُوحُ اللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوةُ وَالسَّلَام ایک مرتبہ کہیں تشریف لئے جارہے تھے، اثنائے راہ شیطان کو دیکھا کہ ایک ہاتھ میں شہد اور دوسرے میں راکھ اٹھائے چلا جارہا تھا،آپ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوةُ وَالسَّلَام نے پوچھا: اے دشمنِ خدا! یہ شہد اور راکھ تیرے کس کام آتی ہے؟ بولا: شہدغیبت کرنے والوں کے ہونٹوں پر لگاتا ہوں تاکہ اس گناہ میں وہ اور آگے بڑھیں اور راکھ یتیموں کے چِہروں پر ملتا ہوں تاکہ لوگ ان سے نفرت کریں۔ (مکاشفۃ القلوب،ص۶۶)
غیبت پر ابھارنے والی 16چیزوں کا بیان:
(1)غصّہ(2)بغض وکینہ(3)حسد(4)گہرے دوست کی بے جا حمایت (5)زِیادہ بولنے یا (6)طنز کرنے یا (7)ہنسی مذاق یا(8) گِلہ شکوہ کرنے (9) ''بھڑاس''نکالنے کی عادت (10) گھریلو ناچاقِیاں (11)تکبّر(12)وَہمی طبیعت (13)بے جا تنقیدی ذِہن(14)غیبت کے دینی و دنیوی نقصان معلوم نہ ہونا(15) رِشتے داروں سے ناراضیاں (16)خوفِ خدا کی کمی۔
(غبیت کی تباہ کاریاں، ص۲۴۸-۲۴۹، ملخصاً)
غیبت سے بچنے کے چند علاج:
a اللہ پاک سے دعا کیجئے کہ وہ غیبت کرنے اور سننے سے بچائے a سنجیدہ اور سنّتوں کے پابند عاشقانِ رسول کی صحبت اختیار کیجئے a ذاتی دوستیوں سے پیچھا چھڑائیے a یہ ذِہن بنائیے کہ اگر کوئی میری غیبت کرے تو مجھے بہت تکلیف ہوگی تو اگر میں کسی اور کی غیبت کروں تو اُسے بھی تکلیف ہوگی اور اچھا مسلمان وہ ہے کہ جو چیز اپنے لئے پسند کرے وہی دوسرے کے لئے بھی پسند کرے تو جب میں اپنے لئے پسند کرتا ہوں کہ میری غیبت نہ کی جائے تو مجھے دوسرے کے لئے بھی یہی پسند کرنا چاہئے کہ میری وجہ سے اُسے تکلیف نہ ہو a غصّہ آنے پر بھڑاس نکالنے کے بجائے صبْر کیجئے a غیبت کے عذابات سے خود کو ڈرائیےa کام کی بات کیجئے اور فضول گوئی سے خود کو بچائیے a اگر کسی کی غیبت کرنےکا دل کرے تو اپنے عیبوں اور خامیوں کی طرف تو جّہ کرکے اپنی اِصلاح کی فکْر کرنا شروع کردیجئے۔ اِنْ شَاءَ اللہ مدد ملےگی۔ (غیبت کی تباہ کاریاں، ص 257 تا 290 ملخصاً)
نوٹ: غیبت کے بارے میں مزید جاننے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ’’غیبت کی تباہ کاریاں‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔
**********
’’سچ بولنا‘‘
سچ کی تعریف:
ایسی بات کہنا جو حقیقت کے مطابق ہویعنی جیسا ہوا ہو ویسا ہی کہنا سچ کہلاتا ہے۔
(ماخوذ از التعریفات للجرجانی، باب الصاد، ص 95)
سچ کے بارے میں قرآن کی آیت:
(ترجمہTranslation:) اللہ نے فرمایا: یہ (قیامت) وہ دن ہے جس میں سچوں کو ان کا سچ نفع دے گا، اُن کے لئے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، وہ ہمیشہ ہمیشہ اُس میں رہیں گے، اللہ اُن سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔ (ترجمۂ کنز العرفان ) (پ7، المآئدۃ:119)
ا س آیت کا مطلب یہ ہےکہ جنہوں نے دنیا میں سچ بولا تھا ان کا سچ قیامت کے دن انہیں کام آئے گا اور انہیں فائدہ دے گا، کیونکہ عمل کرنے کی جگہ دنیا ہے اور جزا (یعنی انعام یا سزا) ملنے کا دن آخرت ہے۔
(صراط الجنان، 3/61ملخصاً)
سچ کے بارے میں حدیث :
ہم گنہگاروں کی نیکیاں بڑھانے والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: سچ بولنے کو لازم کرلو! کیونکہ سچّائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنّت کا راستہ دکھاتی ہے۔ آدمی مسلسل سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ پاک کے نزدیک ’’صِدِّیق‘‘(یعنی بہت سچ بولنے والا) لکھ دیا جاتا ہے۔
(مسلم ، کتاب البر والصلۃ، باب قبح الکذب وحسن الصدق وفضلہ، ص 1078، حدیث: 6639)
سچ بولنے کی عادت بنانے کے لئے چند مدنی پھول:
kسچ کے فضائل اور بُزرگانِ دین کی نصیحت بھری باتوں کو پڑھئے kسچ کے دنیا اور آخرت کے فوائد پیش نظر رکھئے kاِسی طرح جھوٹ کے نقصانات بھی ذِہْن میں رکھئےاور اِس کے عذابات سے خود کو ڈرائیے kسچ بولنے میں کسی کے جھاڑنے یا ذلیل کرنے کی پرواہ مت کیجئےکہ دنیا کی ذِلّت آخرت کی ذِلّت سے بہت کم ہے kاپنے دل میں خوفِ خدا پیدا کیجئے کہ اللہ پاک سے ڈرنے والا ہمیشہ سچ ہی بولتا ہے۔
(نجات دلانے والے اعمال کی معلومات، ص 229۔232)
نوٹ: سچ کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ’’نجات دلانے والے اعمال کی معلومات‘‘ صفحہ 227 تا 233 کامطالعہ مفید رہے گا۔
**********
اللہ پاک کے احسان
پیارے اسلامی بھائیو! ہمارے پیارے اللہ پاک کی بے شمار نعمتیں ساری کائنات پر ہر لمحہ بہت تیزی کے ساتھ بَرَس رہی ہیں۔ ہم اگر اپنے کھانے کے ایک لقمہ پر ہی غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ ایک لقمہ جو بظاہر ایک نعمت ہےمگر اس ایک نعمت میں اللہ پاک نے ہمار ے لئے ڈھیروں نعمتیں رکھی ہیں۔ چنانچہ
sلقمہ دو چیزوں کا مکسچر (Mixture) ہوتا ہے: (1)روٹی (2)سالن sروٹی آٹے سے بنتی ہے، جبکہ سالن سبزی اور گوشت سے تیار ہوتاہے sجن جانوروں کے گوشت سے سالن تیار ہوتا ہے ان کی پرورش گھاس وغیرہ سے ہوتی ہے sجبکہ سبزی اور گھاس زمین سے پیدا ہوتی ہے sسبزی اور دیگر اناج وغیرہ کے ذائقے کےلئے سورَج کی گرمی sچاند کی کِرنوں sہواؤں sبادَلوں sبارِشوں sدریاؤں sاور سمندروں کی ضرورت ہوتی ہے sسمندروں سے بُخارات(Evaporation) اُٹھتے ہیں sبادَل بنتے ہیں sاُن سے بارِش بَرَستی ہے sبارِش سے کھیتوں کو پانی ملتا ہے sکھیتی پک کر تیّار ہوتی ہے sپھر کھیتی کاٹی جاتی ہے sبھاری مشینوں سے گندم کو چھلکے سے الگ کیا جاتا ہے sاورپھر گندم کو پیسنے کے لئے گاڑیوں کے ذریعے فلور ملز (Flour Mills) تک پہنچایا جاتا ہے sگندم پیسنے کے لئے لوہے کی مشینیں استعمال ہوتی ہیں sجبکہ سالن پکانے کے لئے برتن کی ضرورت ہوتی ہے sاِسی طرح کھاناپکانے کے لئے ایندھن کا استعمال کیا جاتا ہے sاور ایندھن حاصل کرنے کے لئے زمین سے نکلنے والا کوئلہ sقدرتی گیس sتیل s اور جنگلات کے درخت کام آتے ہیں۔یوں اِن سب چیزوں کے ذریعے کھانا تیار ہوتا اور ایک لقمہ بنتا ہے sپھر اُس لقمہ کا مزہ حاصل کرنے کے لئے اللہ پاک نے ہمارے منہ ذائقہ محسوس کرنے کےلئے زبان پیدا فرمائی ہے sلقمہ ہضم کرنےکے لئے ایک خاص قسم کا لُعاب(یعنی تھوک) رکھا ہے sاور لقمہ چبانے کے لئے دانت عطا فرمائے ہیں sاِتنا ہی نہیں! لقمہ حلق سے اترنےکے بعد انسان کا کام تو ختم ہوجاتا ہے لیکن جسم کے مختلف حصّوں کا کام شروع ہوجاتا ہے sمعدہ (Stomach)لقمے کو پیستا (Grind کرتا)ہے sجگر(Liver) اُس سے خون بناتا ہے sجبکہ زائد(Extra) چیزوں کے بھی نکلنے کا ایک نظام ہے۔ یوں آنکھ، ناک، کان، ہاتھ اور پیر سب کو اِسی لقمہ سے فائدہ ملتا ہے sاِسی سے چربی(Fat) s گوشت sاور ہڈّیاں بنتی ہیں sاِس طرح اتنی ساری نعمتوں کے سائے میں انسان نہ صرف زندہ رہتا ہے بلکہ نعمتوں سے بھری اِس دنیا کی اور نعمتیں حاصل کرتے ہوئے اپنی زندگی گزارتا ہے۔ (ماخوذ از شکر کے فضائل، ص 8 تا 10)
بے شک اللہ پاک نے قرآن کریم میں سچ فرمایا ہے: (ترجمہTranslation:) اور اگر تم اللہ کی نعمتیں گِنو تو اُنہیں شمار نہیں کرسکو گے۔ بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (ترجمۂ کنز العرفان ) (پ14، النحل:18)
کاش! ہم اللہ پاک کے شکر گزار بندے بنیں، اُس کے دین پر استقامت سے رہیں اور اُس کی فرمانبرداری میں اپنی زِندگی گزاریں۔
میرے نبی صلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی شان
مدینے والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَکے پیارے چچا حضرتِ سیِّدُناعبّاس رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے عرض کی: یارَسولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ! مجھے توآپ کی نُبوَّت کی نشانیوں نے آپ کے دِین میں داخِل ہونے کی دعوت دی تھی، میں نے دیکھا کہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (بچپن میں) گہوارے(یعنی جُھولے) میں چاند سے باتیں کرتے اوراپنی انگلی سے اُس کی طرف اشارہ کرتے تھے۔ جس طرف آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِشارہ فرماتے چاند اُس طرف جھک جاتا تھا۔ نُور والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: میں چاندسے باتیں کرتاتھا اور چاندمجھ سے باتیں کرتاتھا او ر وہ مجھے رونے سے بہلاتاتھااورجب چاند عرشِ الٰہی کے نیچے سجدہ کرتا تھا اُس وقت میں اُس کی تسبیح کرنے کی آواز سُنا کرتاتھا۔ (الخصائص الکبرٰی، 1/91)
چاند جُھک جاتا جدھر اُنگلی اٹھاتے مَہْد میں |
کیا ہی چلتا تھا اِشاروں پر کھلونا نُور کا |
پیارے اسلامی بھائیو! آپ نے سُنا کہ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو اللہ پاک نے کیسی قوّت عطا فرمائی تھی کہ آپ بچپن میں اِشارے سے چاند کو جِدھر چاہتے لے جاتے تھے۔نبی ہونے کا اعلان کرنے کے بعد تقریباً48 بَرَس کی عمر میں کفّارِ مکّہ نے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے چاند کو 2ٹکڑے کر کے دکھانے کا مُطَالَبہ کیا تو تب بھی آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اِشارے سے چاند کو 2 ٹکڑے کر کے دِکھا دیا تھا۔ (مدارج النبوۃ ، 1/181)
چاند اِشارے کا ہِلا،حکم کا باندھا سُورج |
واہ! کیا بات شَہا! تیری توانائی کی |
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب |
صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد |
آج کا موضوع:
آخری نبی محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے بارے میں اِسلام کے چند بنیادی عقیدے
z اللہ پاک نے سب سے پہلے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو ’’نبی‘‘ کا مرتبہ عطا فرمایا اگرچہ دنیا میں سب سے پہلے حضرتِ آدم علیہ السّلام تشریف لائے zآپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تمام انسانوں، جِنّات بلکہ پوری مخلوق کے نبی ہیں zآپ کو اللہ پاک نے جوبھی اَحکامات (دین کی باتیں)پہنچانے کا حکم دیا تھا آپ نے وہ سب اُمّت تک پہنچادئیے zآپ معصوم ہیں، یعنی آپ سے گناہ ہونا ممکن ہی نہیں zآپ ہر اُس بُرائی سے پاک ہیں جس سے لوگ نفرت کرتے ہیںzاللہپاک نے آپ پر قرآنِ کریم نازِل فرمایا zاللہ پاک نے آپ کو غیب یعنی چھپی ہوئی باتوں کا علم عطا فرمایا ہے۔یعنی زمین اور آسمان کا ہر ذرّہ آپ کے سامنے ظاہر ہے zآپ کی تعظیم(Respect) کرنا فرضِ عَیْن یعنی لازِم اور دین کا سب سے بنیادی فرض ہے zاللہ پاک نے جو کچھ پیدا کیا ہے آپ اُن سب سے افضل ہیں zآپ اللہ پاک کے سب نبیوں کے سردار ہیں zآپ اپنے مزار میں اُسی طرح زندہ ہیں جس طرح دنیا میں تھے، کھاتے پیتے ہیں اور آتے جاتے ہیں zآپ ساری دنیا کے لئے رَحمت ہیں اور مسلمانوں پر تو بہت ہی زیادہ مہربان ہیں zآپ اللہ پاک کے آخری نبی ہیں، آپ کی زندگی میں کوئی اور نبی نہیں آیا اور آپ کے بعد بھی قیامت تک کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔ البتہ حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام جو کہ اللہ پاک کے سچّے نبی ہیں، زندہ ہیں، آسمانوں پر ہیں۔ یہ تشریف لائیں گے مگر اِنجیل شریف کی تعلیمات نہیں دیں گے بلکہ قرآنِ پاک ہی کی تعلیمات عام کریں گے zاللہ پاک نے جتنے کمالات باقی مخلوق کو عطا فرمائے وہ سب کے سب بلکہ اور بڑھاکر آپ کو عطا فرمائے ہیں zآپ کو اللہ پاک نے شریعت کے تمام اَحکامات پر اختِیار عطا فرمایا ہے zآپ کو اللہ پاک نے ’’مُختارِ کُل‘‘ بنایا ہے۔ یعنی سب کچھ آپ کے اختیار میں دے دیا ہے۔ جسے جو چیز اور جو حکم دینا چاہیں دے سکتے ہیں zآپ جیسا نہ کوئی تھا، نہ ہے اور نہ ہی ہوسکتا ہے۔ کسی کا بھی آپ جیسا ہونا ممکن نہیں zاللہ پاک نے آپ کو ’’مَحبوبیتِ کُبرٰی‘‘ (یعنی سب سے بڑے محبوب) کا مرتبہ عطا فرمایا ہے zاللہ پاک نے آپ کو رات کے تھوڑے سے حصّے میں معراج کروائی۔ یعنی پہلے مکّہ سے بیتُ المُقَدَّس تک اور پھر وہاں سے ساتوں آسمانوں کی سیر کروائی ، اُس کے بعد اپنی زیارت اور کلام کا شرف بھی عطا فرمایا zاللہ پاک نے آپ کو ’’شفاعتِ کُبرٰی‘‘ کا منصب بھی عطا فرمایا ہے کہ جب تک قیامت کے دن آپ شفاعت نہیں کریں گے کوئی اور کسی کی شفاعت نہیں کرسکے گا zآپ کی محبّت پر ایمان کا دارو مدار ہےzآپ کا حکم ماننا در اصل اللہ پاک کا حکم ماننا ہے zآپ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد بھی آپ کی تعظیم ویسے ہی لازم ہے جیسے آپ کی ظاہری زندگی میں لازم تھی zآپ کی کسی بھی بات، یا کام یا حالت وغیرہ کو گھٹیا نظر سے دیکھنا کفر ہے۔ ایسا شخص کافر ہوجاتا ہے۔ (بہار شریعت، 1/29 تا85،حصہ1ملخصاً)