عنوان |
مدنی قاعدہ |
اذکارِ نماز: التحیّات، سورۃ الفاتحہ، سورۃ الاخلاص |
غسل(خصوصاً ناک میں پانی چڑھانے) اور کپڑے پاک کرنے کا طریقہ اختتامِ بیان پر: ناخن حجامت، موئے بغل، زلفیں کی سنتیں و آداب |
وقفہ |
(1)بد نگاہی (2)بد گمانی (3)قناعت |
وقفہ برائے کھانا،نماز ، ظہر درس |
اذکارِ نماز کی دہرائی |
سب انبیاعلیہم السلام سچے اور سب آسمانی کتابیں سچی ہیں |
مدنی قاعدہ / اذکار نماز
**********
’’غسل کا طریقہ‘‘
غسل کے بارے میں 02 احادیث مبارکہ:
(1)ہماری بھلائی چاہنے والےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا فرمان ہے: فرشتے اس گھر میں نہیں آتے جس میں کوئی جنبی (یعنی ایسا شخص جس پر غسل کرنا فرض ہو) موجود ہو۔
(ابو داود، کتاب الطہارۃ، باب فی الجنب یؤخر الغسل، 1/109، حدیث:227 ملتقطاً)
(2)ایک مرتبہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے فرض غسل کرتے ہوئے ایک بال کے برابر جسم کا کوئی حصّہ نہ دھویا اسے آگ کا عذاب دیا جائے گا۔
(ابو داود، کتاب الطہارۃ، باب فی الغسل من الجنابۃ، 1/117، حدیث:249)
غسل کے ’’فرائض‘‘
نہانے کے دوران ان 3 چیزوں کا کرنا ضروری ہے، ورنہ غسل نہیں ہوگا۔
01 |
کُلّی کرنا |
02 |
ناک میں پانی چڑھانا |
03 |
تمام بَدَن پر پانی بَہانا |
ک ُلّی کرنے کا طریقہ:
سیدھے ہاتھ میں پانی لے کر منہ میں ڈالئے اور اچّھی طرح منہ کے اوپر، نیچے، دائیں اور بائیں گھما کرحَلْق کے شروع تک پانی پہنچا کر پھینک دیجئے۔ یہ کام 3 مرتبہ کیجئے، تاکہ منہ کے اندر کا ہر حصّہ حَلْق تک اچّھی طرح دُھل جائے اور دانتوں میں جو چیز پَھنسی ہو نکل جائے۔
ناک میں پانی چڑھانے کا طریقہ:
غُسل میں ناک کے اندر کا نرْم حصّہ سخت ہڈّی تک دھونا ضروری ہے، اِس کے لئے سیدھے ہاتھ میں پانی لے کر ناک کے قریب لائیے اورآہستہ سے پانی سونگھ کر ناک کی ہڈّی تک چڑھائیے۔ یہ کام 3 مرتبہ کیجئے، تاکہ ناک اچّھی طرح دُھل جائے اور رینٹھ وغیرہ سب نکل جائے۔ ناک کے بال دُھلنا بھی ضروری ہے۔ یاد رہے! اگر ناک میں میل جما ہوا ہو تو اُسے نکال کر پانی چڑھانا لازم ہے۔
تمام بدن پر پانی بہانے کا طریقہ:
سَر کے بالوں سے پاؤں کے تلوؤں تک جسم کے ہر حصّے، کھال اور ہر بال پر پانی بہانا ضروری ہے۔ سردی کا موسم ہو تو پہلے پانی مَل لیجئے ، پھر پانی بہائیے، تاکہ جسم کا کوئی حصّہ خشک نہ رہ جائے۔ یاد رہے! بال برابر بھی جسم کا کوئی حصّہ دھلنے سے رہ گیا تو غسل نہیں ہوگا۔بالخصوص یہ احتیاطیں ضرور کیجئے:۔
خ مَردسرکے بال کھول کرجڑ سے نوک تک پانی بہائے خاگر کانوں میں بالی یا ناک میں نَتھ کا چھید (سُورا خ ) ہواوروہ بندنہ ہوتو اُس میں بھی پانی بہائیے خ بَھنووں، مُونچھوں، داڑھی اور کان کاہرحصّہ اچّھی طرح دھوئیے خ کانوں کے پیچھے کے بال ہٹا کر، ٹَھوڑی اورگلے کاجوڑ اُٹھا کر، پیٹ کی بلٹیں اُٹھاکر اور ہا تھوں کو اُٹھاکر بغلیں دھوئیے خ ناف میں بھی پانی ڈالئے خجسم کاہر بال جڑ سے نوک تک دھوئیے خاگر خَتنہ نہ ہوا ہو اورکھال چڑھ سکتی ہوتوچڑھا کر دھوئیے اورکھال کے اندرپانی چڑھائیے۔ (ماخوذ ازغسل کاطریقہ، ص 3تا 6)
اسلامی بہنوں کیلئے غسل کی چند مزیداحتیاطیں
(1)اگراسلامی بہن کے سرکے بال گُندھے ہوئے ہوں توصِرف جڑتر کرلینا ضَروری ہے کھولنا ضَروری نہیں۔ہاں اگرچوٹی(plait) اتنی سخت گُندھی ہوئی ہوکہ بے کھولے جڑیں(roots) ترنہ ہوں گی توکھولناضَروری ہے (2)اگر کانوں میں بالی (earring) یا ناک میں نَتھ کا چھَید (سُورا خ ) (hole) ہواوروہ بندنہ ہوتو اس میں پانی بہانا فرض ہے۔ وُضومیں صِرف ناک کے نَتھ کے چھَید (hole) میں اورغسل میں اگرکان اورناک دونوں میں چھَید (holes) ہوں تو دو نو ں میں پانی بہائيے (3)اگرنَیل پالِش ناخنوں پرلگی ہوئی ہے تواس کابھی چھُڑانافرض ہے ورنہ وُضووغسل نہیں ہو گا ، ہاں مہندی کے رنگ میں حرج نہیں ۔ (مزید مدنی پھول پڑھنے کے لیے اسلامی بہنوں کی نماز ص52-54 پڑھ لیں)۔
’’کپڑے پاک کرنے کے طریقے‘‘
اللہ پاک کا ارشاد:
(ترجمہTranslation:) اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔ (ترجمۂ کنز العرفان) (پ29، المدثر:4)
تفسیر ’’صراطُ الجِنان‘‘ میں ہے: اپنے کپڑے ہر طرح کی نجاست (یعنی گندگی)سے پاک رکھیں، کیونکہ نَماز کے لئے طَہارت (یعنی جسم ، کپڑوں اور جس جگہ نماز پڑھنی ہے سب کا پاک ہونا) ضروری ہے اور نَماز کے علاوہ اور حالتوں میں بھی کپڑے پاک رکھنا بہتر ہے۔ (صراط الجنان، 10/430)
بعض بُزرگوں نے فرمایا: پاک کپڑوں میں رہنا، پاک بستر پرسونا (اور) ہمیشہ باوُضو رہنا دِل کی صفائی کا ذریعہ ہے۔ (مراٰۃ المناجیح،1/ 468)
نَجاستِ مرئیہ (گاڑھی گندگی) اور نَجاست غیرِ مرئیہ (پتلی گندگی) پاک کرنے کاطریقہ
نجاستِ مرئیہ (گاڑھی گندگی) ہو، جیسے: پاخانہ، گوبَر اور خون وغیرہ۔یا نجاستِ غیرِ مرئیہ(پتلی گندگی) ہو، جیسے: جیسے: پیشاب وغیرہ۔ دونوں صورتوں میں کپڑا اِتنا دھوئیے کہ گندَگی کا اثَر، رنگ، بدبو وغیرہ ختم ہوجائے۔ اگر ایک بار دھونے میں ہی گندگی صاف ہوجائے تو 2 مرتبہ مزید دھولیجئے۔ نجاست غیرِ مرئیہ (پتلی گندگی) پاک کرنے کے لئے یہ طریقہ بھی استعمال کیا جاسکتا ہے کہ ’’نَلْ کے نیچے کپڑے رکھ کر نَلْ کھول دیجئے اور اتنا پانی بہائیے کہ گندَگی(ناپاکی)بہہ جانے اور کپڑا پاک ہونے کا خیال مضبوط ہوجائے، کپڑا پاک ہو گیا‘‘۔ لیکن یہ احتیاط ضروری ہوگی کہ اس دوران پانی کا کوئی بھی چھینٹا آپ کے بدَن، کپڑوں یا کسی اور چیز پر نہ پڑے۔ ورنہ وہ بھی ناپاک ہوجائے گا۔ (ماخوذ از کپڑے پاک کرنے کا طریقہ مع نجاستوں کا بیان، ص 25 تا 33)
**********
’’اِسلام‘‘ کی خوبیاں
پیارے اسلامی بھائیو! صفائی ستھرائی دینِ اِسلام کی ایک بہت نُمایاں خوبی ہے۔ اللہ کے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے صفائی کی اَہمیت بیان کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا: صفائی آدھا ایمان ہے۔
(مسلم ، کتاب الطہارۃ، باب فضل الوضو، ص 115، حدیث:534)
کیونکہ ایمان دل کو برائیوں سے پاک اور خوبیوں سے سجاتا ہے اور صفائی جسم کو صرف گندگی سے پاک کرتی ہے اس لئے صفائی کو آدھا ایمان فرمایا گیا۔ (ماخوذ از مراٰۃ المناجیح، 1/232)
صفائی وہ پیاری عادت ہے کہ جس مرد و عورت میں یہ موجود ہو اُسے عزّت بخشتی ہے، صفائی اِنسان کے سَر کا بہت قیمتی تاج ہے، اِنسان امیر ہو یا فقیر ہر حال میں صفائی اِنسان کے وقار میں اضافہ کرتی ہے۔ اس لئے ہر مسلمان کا یہ اِسلامی نِشان ہے کہ وہ اپنے بدَن، اپنے مکان و سامان، اپنے دروازے اور صحن وغیرہ ہرہر چیز کی صفائی ستھرائی کا دھیان رکھے۔ (ماخوذ ازجنتی زیور ، ص139)
خیال رہے کہ ظاہر کے ساتھ ساتھ انسان کو اپنے باطن (یعنی اندر) کی بھی صفائی رکھنی ہوگی۔ کہ نہ تو مسلمان کا لباس گندہ ہو، نہ سوچ گندی ہو، نہ گھر گندہ ہو اور نہ ہی اس کی سوچ میں کسی مسلمان کے حوالے سے گندگی بھری ہو۔ آج سے تقریباً 100سال پہلے کےبہت بڑے عالمِ دین اِمام اَحمد رَضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مسلمان کے کام کو جہاں تک ممکن ہو اچھا ہی سمجھنا واجب ہے۔ (ماخوذ از فتاوی رضویہ، 5/324)
مقصد یہ ہے کہ اِسلام نے جسم، لباس ، مکان کوصاف کرنے کی اہمیت کے ساتھ ساتھ دل ودماغ کی سوچ کی صفائی کا بھی درس دیا ہے۔ مزید یہ کہ گندَگی اِنسان کی عزّت کی بدترین دشمن ہے، اس لئے ہمیشہ صفائی ستھرائی کی عادت ڈالنی چاہئے۔ صفائی ستھرائی سے صحّت و تندرستی بڑھتی ہے اور سینکڑوں بلکہ ہزاروں بیماریاں دُور ہوتی ہیں۔ پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو میلے کچیلے رہنے والے لوگ پسند نہیں تھے۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اپنے صحابہ کو ہمیشہ صفائی ستھرائی کا حکم دیتے رہتے اور اس کی تاکید کیا کرتے تھے۔ (ماخوذ ازجنتی زیور ، ص139)
چنانچہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: اِسلام صفائی ستھرائی والا دین ہے، اِس لئے صاف ستھرے رہا کرو، کیونکہ جنّت میں وہی داخل ہوگا جو صاف ستھرا ہوگا۔ (معجم اوسط، 3/382، حدیث:4893)
یعنی اپنے ظاہر کو گندگی سے صاف رکھو! مثلاً: میلے کچیلے کپڑے پہننے سے بچو، غذا و لباس حرام نہ ہو، اپنے باطن کوبھی اس طرح ستھرا رکھو کہ دُرست عقیدہ رکھو اور شِرک وگمراہی سے بچو، نیز اپنے دل کو حَسَد اور بغض و کینہ سے بھی پاک رکھو، کیونکہ جنّت میں وہی داخل ہوگا جس کا ظاہر اور باطن دونوں پاکیزہ ہوں گے۔
(فیض القدیر،2/408۔409)
ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا: اپنے کپڑے دھویا کرو، بالوں کو کاٹا کرو، مسواک کیا کرو، (تیل وغیرہ لگا کر اچھے لباس اور حلیے کے ذریعے) زینت اختیار کیا کرو اور صاف ستھرے رہا کرو۔ کیونکہ بنی اسرائیل ایسا نہیں کرتے تھے جس کی وجہ سے اُن کی عورتیں بدکاری میں مبتلا ہوگئی تھیں۔ (تاریخ دمشق، 36/124)
اِسلام نے اپنے ماننے والوں کو ہر طرح کی صفائی کا حکم دیا ہے، چاہے وہ جسمانی ہو یا رُوحانی ہو، ایک فرد کی ہو یا پورے معاشرے کی، مسجد کی ہو یا محلے کی، الغرض! اِسلام جسم و روح، دل و دماغ اور دوسری ہر چیز کی صفائی رکھنے کا درس دیتا ہے ۔
جِسمانی صفائی سے متعلق ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:پانچ چیزیں فِطرت سے ہیں: (1)ختنہ کرنا (2)ناف کے نیچے کے بال صاف کرنا (3)مونچھیں ہلکی کرنا (4)ناخن کاٹنا (5)بغل کے بال اُکھیڑنا۔ (بخاری، کتاب اللباس، باب تقلیم الاظفار، 4/75، حدیث: 5891)
فطرت سے مراد وہ طریقہ ہے جس پر پہلے کے انبیا عَلَیْہِمُ السّلام بھی عمل کرتے رہے ہوں اور ہمارے نبی حضرت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے بھی اُس طریقے پر عمل کیا ہو اور اسے کرنے کی رغبت دلائی ہو۔ یعنی اوپر بیان کردہ 5 چیزیں ہر شریعت میں موجود تھیں اور ہمیں بھی ان پر عمل کا حکم دیا گیا ہے۔ (مراٰۃ المناجیح، 1/276 مفہوماً)
آئیے! ان چیزوں کے بارے میں چند سنتیں اور آداب سنتے ہیں:۔
ناخُن حَجامت، موئے بغل اور زلفوں کی سنتیں و آداب
e 40 دن کے اندر اندر ان4 کاموں کو ضرورکرلیں:۔ (1)مونچھیں ہلکی کرنا۔ اِمام اَحمد رَضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مونچھیں اتنی بڑھانا کہ منہ میں آئیں حرام، گناہ اور غیر مسلموں کا طریقہ ہے۔ (ماخوذ از فتاوی رضویہ، 22/684) (2)ناخن کاٹنا (3)بغل کے بال صاف کرنا (4)ناف کے نیچے کے بال صاف کرنا۔ حضرتِ اَنَس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (بیان کردہ پچھلی چاروں چیزوں میں) ہمارے لئے وقت مقرّر کیا گیا ہے کہ اِن چیزوں کو 40 دن سے زیادہ نہ چھوڑیں۔ (مسلم، کتاب الطہارۃ، باب خصال الفطرۃ، ص125، حدیث: 599) eہفتہ میں1بار ناف کے نیچے کے بال صاف کرنا ثواب کا کام ہے، 15ویں دن کرنے کی بھی اجازت ہے۔ لیکن 40 دن سے زیادہ گزارنا منع ہے eہاتھ کے ناخن کاٹنے کی ایک سنّت یہ ہے کہ پہلے سیدھے ہاتھ کے انگوٹھے کے برابر والی انگلی کا ناخن کاٹیں اس کے بعد ترتیب کے ساتھ سیدھے ہاتھ کی باقی انگلیوں کے ناخن کاٹیں اور انگوٹھا چھوڑ دیں، پھر اُلٹے ہاتھ کی چھوٹی انگلی سے شروع کریں اور ترتیب کے ساتھ کاٹتے ہوئے انگوٹھے کا ناخن بھی کاٹ لیں، اس کے بعد سیدھے ہاتھ کے انگوٹھے کا ناخن کاٹ لیں۔ اس طریقے میں خوبصورتی یہ ہے کہ سیدھے ہاتھ سے ہی کاٹنا شروع کیا اور سیدھے ہاتھ پر ہی ختم کیا۔ (اس طریقے کو یاد رکھنے کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ جس طرح دعا میں ہاتھ اُٹھا تے ہیں، اسی طرح آپ اپنے ہاتھ اُٹھا لیجئے یعنی ہتھیلیاں آسمان کی طرف رکھیں۔ اب سیدھے ہاتھ کی شہادت کی اُنگلی سے شروع کرنا ہے اور الٹے ہاتھ کے انگوٹھے کا ناخن کاٹنے کے بعد سیدھے ہاتھ کے انگوٹھے پر ختم کرنا ہے) eپاؤں کے ناخن کاٹنے میں بہتر طریقہ یہ ہے کہ سیدھے پاؤں کی چھوٹی انگلی سے شروع کریں اور ترتیب کے ساتھ کاٹتے ہوئے انگوٹھے کا ناخن بھی کاٹ لیں، پھر الٹے پاؤں کے انگوٹھے سے شروع کریں اور ترتیب کے ساتھ کاٹتے ہوئے چھوٹی انگلی کا ناخن بھی کاٹ لیں eدانت سے ناخن نہ کاٹے جائیں کہ اس سے برْص (جسم پر جگہ جگہ دھبے پڑجانے والا مرض) ہونے کا خطرہ ہوتا ہے eناخن کاٹنے کے بعد انگلیوں کے پَورے دھولینے چاہئیں eمرد ناف کے نیچے کے بال صاف کرنے کےلئے بلیڈ استعمال کرے، بال صاف کرنے والا پاؤڈر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے eناف کے نیچے کے بال بالکل ناف کے نیچے سے کاٹنا شروع کیجئے eجب غسل فرض ہو اُس وقت بال یا ناخن کاٹنا ناپسندیدہ کام ہے eناخن یا بال وغیرہ کاٹنے کے بعد زمین میں دفن کردینا بہتر ہےeاِسلامی بہنیں جسم کے کسی بھی حصّے کے بال ایسی جگہ ہر گز نہ ڈالیں جہاں کسی غیر مرد کی نظر پڑسکتی ہو eداڑھی کا خط بنوانے کی بھی اجازت ہے e کانوں کے آس پاس کے بال اور گالوں کے ہلکے بال جو بعض لوگوں کے کم اور بعض کے آنکھوں تک ہوتے ہیں یہ داڑھی میں شامل نہیں ہیں، انہیں کاٹ سکتے ہیں eداڑھی ایک مٹھی سے کم کرنا حرام کام ہے، ایک مٹھی سے جو بال زیادہ ہوں وہ کاٹے جاسکتے ہیں (یعنی ٹھوڑی (Chin) کے نیچے سے ایک مُٹھی اور چہرے کے دونوں اطراف (Sides) کے بعد ایک مُٹھی رکھنی ہے۔ (ماخوذ از فتاوی رضویہ،22/581)) eبُچّی (نچلے ہونٹ کے نیچے والے بال) بھی داڑھی میں شامل ہیں اورداڑھی کے کسی حصے کا مونڈنا جائز نہیں۔ (ماخوذ از فتاوی رضویہ،22/597) eمونچھوں کے کناروں کے بال بڑے ہوں تو اس میں حرج نہیں eناک کے بال نہ اُکھاڑے جائیں، اس سے مَرضِ آکِلہ (یعنی عُضْو کو ختم کردینے والا خارِشی مرض) ہونے کا خطرہ ہے، لہٰذا جب بڑھ جائیں تو ان کو کاٹ لیا جائے eصرف گردن کے بال کٹوانا ناپسندیدہ کام ہے، ہاں اگر پورے سر کے بال کٹوائیں تو گردن کے بھی کٹوالئے جائیں eہاتھ، پاؤں اور پیٹ کے بال ختم کرنا چاہیں تو منع نہیں ہے eخوبصورتی و زینت کےلئے اَبرو (Eye Brows) کے بال نوچنا اور اسے بنوانا جائز نہیں ہے۔ حدیث میں ابرو بنوانے والی عورت کے بارے میں لعنت آئی ہے۔ (مختصر فتاویٰ اہلسنّت، ص192) eزُلفیں رکھنا ہمارے پیارےنبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی بہت پیاری سنّت ہے eزلفیں رکھنے میں تین طریقے ہیں:۔ (1)آدھے کان تک رکھئے (2)کان کی لو تک رکھئے (3)اتنے بال بڑھالیجئے کہ کندھوں کو چھونے لگیںeمرد کو کندھوں سے نیچے زلفیں رکھنا جائز نہیں eسر کے بیچ میں مانگ نکالنا بھی سنّت ہے۔ (ماخوذ ازسنتیں اور آداب، ص 63۔ 70)eعورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ مردوں کی طرح کندھوں سے اوپر بال رکھے۔(فتاوی رضویہ ،۲۲/۶۸۸ملخصاً)
**********
’’بد نِگاہی‘‘
بدنِگاہی کی تعریف:
جس کو دیکھنے سے اللہ اور رسول نے منع کیا ہو اُسے جان بوجھ کر دیکھنا بد نِگاہی ہے۔
(گناہوں کے عذابات، ص 66 ماخوذاً)
اللہ پاک کا ارشاد:
(ترجمہTranslation:) مسلمان مَردوں کو حکم دو کہ اپنی نِگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ اُن کے لئے زیادہ پاکیزہ ہے، بیشک اللہ اُن کے کاموں سے خبردار ہے۔
(ترجمۂ کنز العرفان) (پ18، النور:30)
اس آیت میں مسلمان مردوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور جس چیز کو دیکھنا جائز نہیں اس پر نظر نہ ڈالیں۔ (صراط الجنان، 6/616)
بد نِگاہی کے متعلق3احادیث:
(1)مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا فرمان ہے: آنکھیں بھی بدکاری کرتی ہیں۔
(مسند احمد،مسند عبد اللہ بن مسعود، 2/84، حدیث:3912)
(2)اوردوسری حدیث میں فرمایا: آنکھوں کی بدکاری ’’دیکھنا‘‘ ہے۔
(ابو داود، کتاب النکاح، باب ما یؤمر بہ من غض البصر، 2/358، حدیث: 2152)
(3)اسی طرح ایک حدیث میں کچھ یوں ارشاد فرمایا: (اللہ پاک فرماتا ہے:) بدنِگاہی شیطان کے تیروں میں سے زہر میں بجھا ہوا ایک تیر ہے، جو بدنگاہی چھوڑ دے گا میں اُسے ایسا کامل ایمان عطا فرماؤں گا جس کی لذّت وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا۔ (معجم کبیر، 10، 173، حدیث: 10362)
بد نِگاہی کی چند صورتیں:
۞بے پردہ عورتوں کو دیکھنا۞باپردہ عورتوں کو شہوت کے ساتھ(یعنی بری نیت سے) دیکھنا۔’’یاد رہے کہ عورت کا چہرہ دیکھنا بھی منع ہے۔‘‘(بہار شریعت،1/484)۞اسی طرح اَمْرَد (یعنی خوب صورت لڑکے) کو شہوت سے دیکھنا۞مرد نے ایسا باریک لِبَاس پہنا ہو جس سے ناف کے نیچے سے لے کر گھٹنے تک کسی حصے کی رنگت (colour) واضح نظر آرہاہو تب بھی اس جگہ کو دیکھنا بدنِگاہی ہے۔
بد نِگاہی کے حوالے سے چند مسائل:
(1) : بَدْنِگاہِی حرام (فتاوی رضویہ،10/750)اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے۔ (2):(مرد وعورت میں سے) ہر ایک کا دوسرے کی عورت (یعنی پردے کی جگہ) کو دیکھنا قطعی( یعنی یقینی طور پر) حرام ہے ۔(فتاوی رضویہ، 22/201) (3): اَمْرَد (یعنی خُوب صُورت) لڑکے کو شَہْوَت سے دیکھنا بھی حرام ہے۔(رد المحتار،2/99) (جس کو دیکھنا حرام ہے، اس پر )قصداً (یعنی جان بوجھ کر) ڈالی جانے والی پہلی نظر بھی حرام اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے۔ (پردے کے بارے میں سوال جواب،ص296)
بد نگاہی کے نقصانات
پیارے اسلامی بھائیو! cبدنگاہی حَرام اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے cبد نگاہی اللہ و رسول کی نافرمانی والا کام ہے cبدنگاہی کرنے والے کی آنکھ میں قیامت کے دن آگ بھردی جائے گی cبدنگاہی حافظہ کی کمزوری کا سبب بنتی ہے cبدنگاہی در حقیقت بے حیائی ہے cبدنگاہی بدکاری کی طرف لے جانے والی ہے اور بدکاری نسلوں کو خراب کرنے والی ہے۔
اِسلام کا احسان
c اِسلام نے بدنگاہی سے روک کر نسلوں کی حفاظت کی cاِسلام نے بدنگاہی سے روک کر حیا کا درْس دیا cاِسلام نے بدنگاہی سے روک کر دلوں کو چین و سُکون بخشا cاِسلام نے بدنگاہی سے روک کر میاں بیوی کے رشتے کو مضبوط کیا۔
بدنگاہی کی عادت ہو تو کیسے ختم کی جائے؟
x اللہ پاک سے ڈرتے ہوئے سچّی توبہ کیجئے اور توبہ پر قائم رہنے کی دعا کیجئے xآنکھیں نیچی رکھنےکی عادت بنائیے اور اِدھر اُدھر دیکھنے سے بچنے کی کوشش کیجئے کہ ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہیں اکثر جھکی رہتی تھیں xجہاں بدنگاہی کا اندیشہ ہو وہاں جانے سے بچئے xبدنگاہی کا دل کرے تو خود کو جہنّم کے عذاب سے ڈرائیے x’’حیا‘‘ اپنانے کی کوشش کیجئے ، اِس کےلئے باحیا لوگوں کی صحبت اختیار کیجئے xپیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی سیرتِ پاک کا مطالعہ کیجئے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کیجئے xتنہائی میں ہوں یا لوگوں کے درمیان، یہ ذہن میں رکھئے کہ ’’ اللہ دیکھ رہا ہے‘‘ xانٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کا صرف ضروری استعمال کیجئے xصرف اور صرف مَدَنی چینل دیکھئے۔
نوٹ: بدنگاہی سے بچنے کا ذہن بنانے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی یہ کتابیں ’’باحیا نوجوان‘‘’’پردے کے بارے میں سوال جواب‘‘ اور ’’قوم لوط کی تباہ کاریاں‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔
**********
’’بد گمانی‘‘
بدگمانی کی تعریف:
بغیر کسی ثُبوت کے کسی کے بُرا ہونے کا یقین کرلینا بدگمانی کہلاتا ہے۔ (ماخوذ از شیطان کے بعض ہتھیار، ص 32)
اللہ پاک کا ارشاد:
(ترجمہTranslation:) اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔ (ترجمۂ کنز العرفان ) (پ26، الحجرات:12)
تفسیر ’’صراطُ الجنان‘‘ میں ہے: آیت کے اس حصّے میں اللہ پاک نے اپنے مؤمن بندوں کو بہت زیادہ گمان (یعنی خیال) کرنے سے منع فرمایا، کیونکہ بعض گمان ایسے ہیں جو محض گناہ ہیں، لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ گمان کی کثرت سے بچاجائے۔ (صراط الجنان، 9/433ملخصاً)
بدگمانی کے بارے میں 2 احادیث:
(1)آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا عبرت والا فرمان ہے: بدگمانی سے بچو، یقیناً بدگمانی بدترین جھوٹ ہے۔
(بخاری، کتاب النکاح، باب لایخطب علی خطبۃ …الخ، 3/446، حدیث: 5143)
(2)ایک مرتبہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: مسلمان کا خون، مال اور اُس کی بدگمانی (دوسرے مسلمان پر) حرام ہے۔ (شعب الایمان، الرابع والاربعون، 5/297، حدیث: 6706)
بدگمانی کی چند مثالیں:
e شوہر کی توجّہ کم ہوتی دیکھ کر ساس سے بدگمانی کرنا کہ ضرور ساس نے میرے شوہر کو بھڑکایا ہوگا eبیٹے کی توجّہ کم ہوتی دیکھ کر بہو سے بدگمانی کرنا کہ ضرور بہو نے کچھ پٹّی پڑھائی ہوگی eکسی اچّھی نوکری سے نکالے جانے پر دفتر کے کسی شخص سے بدگمانی کرنا کہ ضرور اس نے مجھے نکالنے کی سازِش کی ہوگی eقرض دار سے رابطہ نہ ہونے کی صورت میں بدگمانی کرنا کہ ضرور مجھ سے بھاگنے کی کوشش کررہا ہے eتھوڑے ہی عرصے میں کسی کے پاس گاڑی اور گھر وغیرہ سہولیات آتی دیکھ کر بدگمانی کرنا کہ ضرور کسی غلط کام کی وجہ سے اتنی جلدی ترقّی کی ہے۔ وغیرہ
بدگمانی کی ایک نشانی:
قلبی کیفیت کا بدلنا۔اِمام محمدغزالی رَحْمَةُ اللہِ عَلَیْہفرماتے ہیں: بدگُمانی کے پختہ ہونے کی پہچان یہ ہے کہ جس کے بارے میں غلط گمان آیا ہواُس کے متعلق تمہاری قَلبِی کَیفِیَّت تبدیل ہوجائے۔
(احیاءالعلوم،کتاب آفات اللسان،الآفة الخامسة عشرة الغیبة،بیان تحریم الغیبةبالقلب،۳/۱۸۶)
یاد رہے!
دِل میں کسی کے بارے میں بُرا گُمان آتے ہی اسے گنہگار قرار نہیں دیا جائے گا۔ اِمام محمدغزالی رَحْمَةُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : (مسلمان سے) بدگُمانی بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح زبان سے برائی کرنا حرام ہے۔ لیکن بدگُمانی سے مُراد یہ ہے کہ دِل میں کسی کے برا ہونے کا یقین کرلیا جائے، رہے دِل میں پیدا ہونے والے وَسوَسے تو وہ معاف ہیں۔
(احیاءالعلوم،کتاب آفات اللسان ،الآفة الخامسة عشرة الغیبة،بیان تحریم الغیبةبالقلب،۳/۱۸۶)
بدگمانی کا حکم:
مسلمان سے بدگمانی حرام (اور گناہ) ہے ۔
(الزواجر، الباب الاول فی الکبائر الباطنة وما یتبعہا،الکبیرة الحادیة الثلاثون، ۱/۱۶۵)
آدمی بد گمانی کیوں کرتا ہے؟
(۱)دوسروں کے عیب ڈھونڈنے(۲)دوسرے کے بارے میں بلا وجہ سوچنے (۳)بری سوچ اور (۴)بری صحبت کی وجہ سے۔حضرتِ سیِّدُنا ابوتراب نخشبی رَحمَةُ اللہ عَلَیہ فرماتے ہیں بُروں کی صُحبت اچّھوں سے بدگُمانی پیدا کرتی ہے۔(روح المعانی،پ ۱۶،مریم :تحت الآیة ۹۸،الجزء السادس عشر، ۸/۶۱۲)
بدگمانی سے بچنے کے چند علاج:
a اللہ پاک سے دعا کیجئے کہ وہ بدگمانی کرنے سے بچائے aبُرے لوگوں کی صحبت چھوڑ کر عاشقانِ رسول کی صحبت اختیار کیجئے، کیونکہ برے لوگوں کی صحبت اچّھے لوگوں سے بدگمانی کرواتی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے جب کسی کے کام برے ہوجائیں تو اس کے گمان بھی برے ہوجاتے ہیں۔ (فیض القدیر ،حرف الھمزة، ۱/۴۲۴، تحت الحدیث: ۵۶۳) a ہر مسلمان کے بارے میں اچّھا گمان رکھنے کے لیے اس کی خوبیوں پر نظر رکھیں aاپنی غلطیوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی اصلاح کی کوشش شروع کردیجئے کہ جس کسی کے اپنے کام برے ہوتے ہیں تو وہ دوسروں سے بھی برا گمان رکھتا ہے aبدگمانی کے نقصانات پیش نظر رکھئے اور خود کو آخرت کے عذاب سے ڈرائیے کہ کہیں آج کا برا خیال کل قیامت کے دن جہنم میں نہ ڈلوادے a اگر کسی کے بارے میں بدگمانی ہو رہی تو فوراً اس خیال کو جھٹک کر ’’اَسْتَغْفِرُ اللہ‘‘پڑھئے اور اس کی اچھی عادتیں یا خوبیاں سوچنا شروع کردیجئے۔ (ماخوذ ازبدگمانی، ص 33 تا 35)
نوٹ: بدگمانی کے بارے میں جاننے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ’’ شیطان کے بعض ہتھیار ‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔
**********
’’قناعت‘‘
قناعت کی تعریف:
روزانہ یا آئے دن استعمال ہونے والی چیزوں کے نہ ہونے پر بھی صبر کرنا قناعت کہلاتا ہے۔
(ماخوذ از التعریفات للجرجانی، باب القاف، ص 126)
قناعت کے بارے میں قرآن کی آیت:
(ترجمہTranslation:) اور یہ کہ وہی ہے جس نے غنی کیا اور قناعت دی۔
(ترجمۂ کنز العرفان ) (پ27، النجم:48)
یعنی اللہ پاک ہی لوگوں کو مال و دولت سے نواز کر غنی کرتا ہے اور قناعت کی نعمت سے بھی وہی نوازتا ہے۔ (صراط الجنان، 9/579)
قناعت کے بارے میں حدیث :
خوشخبریاں سنانے والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جو مسلمان ہوا اور اُسے اِتنا رِزْق ملا جو اُس کے لئے کافی ہو اور اللہ پاک نے اُسے قناعت کی توفیق بھی عطا فرمائی تو وہ کامیاب ہوگیا۔
(ترمذی، کتاب الزہد، باب ماجاء فی الکفاف والصبر علیہ، 4/156، حدیث: 2355)
قناعت کی عادت بنانے کے لئے چند مدنی پھول:
kقناعت کے بارے میں آنے والی حدیثوں اور بُزرگانِ دین کے اقوال کا مطالعہ کیجئے k اللہ پاک پر مضبوط یقین رکھئے اور اس بات کو دل میں جمالیجئے کہ میرا تمام حال اللہ پاک جانتا ہے kآخرت کے حساب سے خود کو ڈرائیے اور اپنی تنگ حالت کو آخرت کے لئے بہتر بنانے کی غرض سے صبْر کیجئے kایسے لوگوں کے ساتھ رہئے جو قناعت پسند اور ہر حال میں اللہ پاک کا شکر ادا کرنے والے ہوں kمال و دولت کی حِرْص ختم کیجئے، اِس کے لئے دنیا کے فَنا ہونے اور آخرت میں ہمیشہ باقی رہنے والی نعمتوں کے ملنے کو ذِہْن میں رکھئے k اللہ پاک سے دُعا بھی کیجئے کہ وہ ہر حال میں خوش رہنے اور صبْر و شکر کرنےکی توفیق عطا فرمائے۔
(نجات دلانے والے اعمال کی معلومات، ص 77۔80)
نوٹ: قناعت کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ’’نجات دلانے والے اعمال کی معلومات‘‘ صفحہ 75تا 81 کامطالعہ مفید رہے گا۔
**********
اللہ پاک کے احسان
پیارے اسلامی بھائیو! اللہ پاک نے ہمیں جو نعمتیں ہمیں عطا فرمائی ہیں وہ بیان سے باہر ہیں، جہاں بھی نظر اور سوچ کو دوڑاتے چلے جائیں اُسی کی نعمتیں نظر آتی ہیں۔
’’دودھ‘‘ (Milk) ہی کی نعمت کو لے لیجئے! دودھ انسان کی پیدائش کے بعد اُس کی پہلی خوراک بنتا ہے۔ جب بچّہ پیدا ہوتا ہے تو ماں کا دودھ اُسے وہ غذائیت دیتا ہے جو اُس کی نشو و نُما کے لئے ضروری ہوتی ہے، پھر جب بچّہ تھوڑا بڑا ہوتا ہے تو بھینس، گائے اور بکری وغیرہ کا دودھ اُسے بڑھاپے تک توانائی دیتا ہے۔ اللہ پاک کی شان دیکھئے کہ حیوان جو خوراک کھاتا ہے وہ اُس کے حلق سے اُتر کر اُس کے معدہ میں جاتی ہے، معدہ ایک ہے لیکن خوراک ہضْم ہونے کے بعد اس کا کچھ حصّہ گوبر بن جاتا ہے اور کچھ حصّہ خون بن کر جسم کے تمام اعضا میں پہنچ جاتا ہے۔ خون اور گوبر کے علاوہ ایک اور چیز بھی اِس خوراک سے بنتی ہے جورنگ،بُو اور ذائقہ میں ان چیزوں سے مختلف ہوتی ہے اور وہ ہے ’’دودھ‘‘۔اب اسے سونگھ کر دیکھئے! کیا اس میں تھوڑی سی بھی گوبر کی بدبو آتی ہے؟ غور سے دیکھئے! کیا اِس میں خون کی ہلکی سی سُرخی بھی دکھائی دیتی ہے؟ وہ کون ہے جو اِس طرح کی چیزوں میں سے ایسی پاک اور صاف شفّاف چیزنکالتا ہے؟ وہ اور کوئی نہیں، صرف ہمارا پیارا پیارا ربّ اللہ پاک ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
(ترجمہTranslation:)اور بے شک تمہارے لئے مویشیوں میں غور و فکر کی باتیں ہیں (وہ یہ کہ) ہم تمہیں ان کے پیٹوں سے گوبر اور خون کے درمیان سے خالص دودھ (نکال کر) پلاتے ہیں جو پینے والے کے گلے سے آسانی سے اترنے والا ہے۔ (ترجمۂ کنز العرفان ) (پ14، النحل:66)
لیکن انسان اتنا ناشکرا ہے کہ اپنے کریم ربّ کو نہیں پہچانتا اور اُس کی نافرمانی پر ہر وقت تیار رہتا ہے۔ بزرگانِ دین فرماتے ہیں: اے انسان! جیسے تیرے ربّ نے تجھے خالص دودھ پلایا جس میں گوبر اور خون کی بال برابر بھی ملاوٹ نہیں ہے تو تو بھی اپنے ربّ کی بارگاہ میں خالص عبادت پیش کر جس میں دکھاوے وغیرہ کی ملاوٹ نہ ہو۔ (نور العرفان، النحل، تحت الآیۃ: 66، ص437ملخصاً)
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب |
صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد |
میرے نبی صلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی شان
اللہ پاک کے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَایک مرتبہ مکّہ شریف کے ایک گھر میں تشریف فرماتھے کہ ایک آدمی آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَکی بارگاہ میں ایک گود کے بچے کو کپڑے میں لپیٹ کرلایا جو اُسی دن پیدا ہوا تھا۔ پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَنے اُس بچےّ سے ارشاد فرمایا: میں کون ہوں؟ اللہ پاک کی قدر ت دیکھئے کہ وہ بچہ فوراً بول اٹھا: آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے یہ سن کر اِرشاد فرمایا: تو نے سچ کہا، اللہ پاک تجھے بَرَکت عطا فرمائے۔ (معرفۃ الصحابہ، 4/314، حدیث: 6395)
جو سر رکھ دے تمہارے قدموں پہ سردار ہوجائے |
جو تم سے سر کوئی پھیرے ذلیل و خوار ہوجائے |
|
جو ہوجائے تمہارا اس پہ حق کا پیار ہوجائے |
بنے اللہ والا وہ جو تیرا یار ہوجائے |
|
(سامان بخشش، ص 172)
پیارے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے! اللہ پاک نے ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَکو ایسی شان عطا فرمائی ہے کہ دودھ پیتے بچے نےبھی آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَکے اللہ پاک کا رسول ہونے کی گواہی دی۔
آدم و نوح، براہیم، کلیم و عیسٰی |
ان کو سب کو ملا ،کیا رَبِّ عُلا نے نہ دیا |
باوجود اس کے تمہیں جو ملا اُن کو نہ ملا |
آپ کا رُتبہ کسی کو بھی خدا نے نہ دیا |
(سامان بخشش، ص 69)
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب |
صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد |
اَنبیا عَلَیْہِمُ السَّلَام اور آسمانی کتابوں کے بارے میں اِسلام کے چند بنیادی عقیدے
z اللہ پاک نے دنیا والوں کی ہِدایت و راہ نمائی اور اپنا پیغام پہنچانے کےلئے مختلف اوقات میں اپنے پسندیدہ بندے دنیا میں بھیجے جنہیں ’’نبی‘‘ اور ’’رسول‘‘ کہا جاتا ہے zاللہ پاک پر لازم نہیں تھا کہ نبیوں کو بھیجتا، اُس نے صرف اپنے فضل و کرم سے دنیا میں نبیوں کو بھیجا zاللہ پاک نے جتنے بھی نبی بھیجے وہ سب انسان اور اور مرد تھے، کوئی بھی جن یا عورت نبی نہیں ہوئے zاللہ پاک کے کچھ فرشتے بھی رسول ہیں۔ جیسے: حضرت جبرئیل اور حضرت میکائیل عَلَیْہِمَا السَّلَام zنبی پر اللہ پاک کی طرف سے وحی نازل ہونا ضروری ہے، چاہے کوئی فرشتہ وحی لے کر آئے یا بغیر کسی واسطے کے (Direct) وحی نازل ہو zنبیوں پر جو وحی نازل ہوتی ہے وہ کسی عام شخص پر ہرگز نازل نہیں ہو سکتی zنبی کا خواب بھی وحی ہوتا ہے، یعنی نبی کا خواب جھوٹا ہونا ممکن نہیں zانسان اپنی کوشش یا بہت زیادہ عبادت و ریاضت کے ذریعے نبی نہیں بن سکتا، اللہ پاک صرف اپنی عطا سے جسے چاہتا ہے نبی بنادیتا ہے zایک بار کوئی نبی بن جائے تو ہمیشہ نبی رہتا ہے، اس سے کبھی بھی نبوت چھینی نہیں جاتی zاللہ پاک کے سب نبی معصوم ہوتے ہیں، یعنی ان حضرات کا گناہ کرنا ممکن نہیں zہر نبی ہر اُس بات سے دور ہوتا ہے جس سے لوگ نفرت کرتے ہیں zاللہ پاک نے اپنی نبیوں کو جتنے اَحکامات پہنچانے کا حکم دیا تھا وہ سب نے اُنہوں نے اپنی اُمّت تک پہنچادئیے، کوئی ایک حکم بھی چھپا کر نہیں رکھا z اللہ پاک اپنی عطا سے نبیوں کو چھپی ہوئی باتوں کا بھی علم عطا فرماتا ہے جنہیں عام لوگ نہیں جانتے zنبی تمام مخلوق بلکہ فرشتوں میں جو رسول ہیں اُن سے بھی افضل ہوتے ہیں zسارے نبیوں کی تعظیم(Respect) اور عزّت کرنا دین کا سب سے بنیادی ترین فرض ہے، کسی بھی نبی کی تھوڑی سی بھی توہین(Insult) کرنا یا اُنہیں جھٹلانا (یعنی اُن کا اِنکار کرنا) کفر ہے zنبیوں کی کوئی تعدادہم مقرّر(یعنی Fixed) نہیں کر سکتے، ہمارا یہ عقیدہے کہ اللہ پاک کے جتنے نبی ہیں ہم سب پر ایمان رکھتے ہیں zاللہ پاک نے حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام اور ہمارے نبی حضرت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تک کئی نبیوں اور رسولوں کو دنیا میں بھیجا zقرآن کریم میں کئی نبیوں کا واضح طور پر نامِ مبُارَک آیا ہے۔ جیسے: حضرتِ آدم، حضرتِ نوح، حضرتِ اِبراہیم، حضرتِ اسماعیل، حضرتِ اِسحاق، حضرتِ یعقوب، حضرتِ یوسُف، حضرتِ موسٰی، حضرتِ ہارون، حضرتِ شعیب، حضرتِ لُوط، حضرتِ ہُود، حضرتِ داؤد، حضرتِ سلیمان، حضرتِ ایّوب، حضرتِ زکریّا، حضرتِ یحییٰ، حضرتِ عیسیٰ، حضرتِ اِلیاس، حضرتِ یَسَع، حضرتِ یونُس، حضرتِ اِدریس، حضرتِ ذُو الْکِفْل، حضرتِ صالِح، حضرتِ عُزَیر، حضرتِ محمّدِ مصطفٰے عَلَیْہِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام zنبیوں میں سب سے بڑا مرتبہ ہمارے نبی حضرت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا ہے، اس کے بعد حضرت ابراہیم، پھر حضرتِ موسٰی، اس کے بعد حضرتِ عیسی اور حضرتِ نوح عَلَیْہِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامکا مرتبہ ہے zنبیوں کا اللہ پاک کی بارگاہ میں خاص مقام ہوتا ہےاور یہ اللہ پاک کے ہاں بہت عزّت و عظمت والے ہوتے ہیں zنبی ’’مُعْجِزہ‘‘ بھی دکھاتے ہیں یعنی اپنے نبی ہونے کو ثابت کرنے کےلئے نبی ایسا کام کرکے دکھاتے ہیں جو عام طور پر کسی کا کرنا ممکن نہیں ہوتا، مثلاً: چاند کے 2 ٹکڑے کرنا، اُنگلیوں (Fingers) سے نہریں جاری کر دینا،مُردہ زندہ کرنا، کسی کے مرنے کا مقام بتانا، جیسا کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے ثابت ہے بلکہ اِس سے بہت زیادہ ثابت ہے zتمام نبی اپنے مزارات میں اُسی طرح زندہ ہیں جس طرح دنیا میں زندہ تھے۔ کھاتے پیتے ہیں، آتے جاتے ہیں zاللہ پاک نے اپنے نبیوں پر آسمانی کتابیں اور کئی صحیفے(یعنی تختیاں، صفحات یا چھوٹی کتابیں) نازل فرمائیں جن میں سے چار کتابیں بہت مشہور ہیں: (1)تَورات۔ جو حضرتِ موسٰی عَلَیْہِ السَّلَام پر نازل ہوئی (2)زَبُور۔ جو حضرتِ داؤد عَلَیْہِ السَّلَام پر نازل ہوئی (3)اِنجیل۔ جو حضرتِ عیسٰی عَلَیْہِ السَّلَام پر نازل ہوئی (4)قرآنِ کریم۔ جو ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ پر نازل ہوا zاللہ پاک نے جتنی کتابیں اپنے نبیوں پر نازل فرمائیں ہم ان سب پر ایمان لاتے ہیں z قرآنِ کریم سب سے افضل کتاب ہے،اس کے افضل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے لئے اس میں ثواب زیادہ ہے ورنہ اللہ پاک ایک ہے، اُس کا کلام بھی ایک ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ اُس کا ایک کلام افضل ہو اوردوسرا فضیلت میں کم ہو zقرآن کریم کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ پاک نے لے رکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن میں کسی حرف یا نقطے کی کمی یا زیادتی ممکن نہیں zقرآن کریم جیسا کوئی کلام، اس کی سورت جیسی کوئی ایک سورت، یا اس کی آیت جیسی کوئی ایک آیت بھی بنالینا ممکن نہیں، اِس سے صاف صاف ظاہر ہوتا ہےکہ یہ سارے کا سارا اللہ پاک کا کلام ہے zپہلی کتابوں کی حفاظت کا ذِمّہ اُنہی اُمّتوں پر ہوتا تھا، یہی وجہ ہے کہ آج زمین پر وہ کتابیں اپنی اصل حالت میں موجود نہیں zہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ پاک نے جو تَورات اور اِنجیل وغیرہ نازل فرمائی تھیں ہمارا اُس پر ایمان ہے، لیکن آج کل جو تَورات یا اِنجیل وغیرہ موجود ہیں چونکہ اُن میں بہت ساری تبدیلیاں کردی گئی ہیں، کہیں سے کچھ نکال دیا گیا ہے تو کہیں کچھ بڑھادیا گیا ہے، یہاں تک کہ تَورات یا اِنجیل کے ہی مختلف نسخے (Different Editions) سامنے رکھے جائیں تو اُنہی میں اِختِلاف نظر آتا ہے، اِسی لئے آج کل کی تَورات یااِ نجیل کے بارے میں ہم یہ کہتے ہیں کہ اِن کی جو باتیں قرآنِ کریم کے مطابق ہیں، وہ حق ہیں اور جو قرآنِ کریم کے خلاف ہیں، ہم اُسے نہیں مانتے zاگر اِن کتابوں کی کوئی ایسی بات بیان کی جائے جس کی قرآنِ کریم نہ تصدیق کرے نہ اُسے جھٹلائے تو ایسی بات پر ہم چُپ رہیں گے اور یہ کہیں گے کہ ’’ہم اللہ پاک، اُس کے فرشتوں، اُس کی کتابوں اور اُس کے رسولوں پر ایمان لائے‘‘ zپہلی کتابیں صرف نبیوں کو زبانی یاد ہوتی تھیں، لیکن یہ قرآن کریم کا معجزہ (یعنی عقل کو حیران کردینے والی بات) ہے کہ مسلمانوں کا بچّہ بچّہ قرآنِ کریم زبانی یاد کرلیتا ہے z mazhabؤں کے پاس اللہ پاک کی کوئی کتاب نہیں، اُن کی ’’وید‘‘ نام کی کتاب جسے وہ آسمانی کتاب کہتے ہیں، وہ پہلے کے شاعِروں کی نظمیں ہیں۔
(ماخوذ از بہار شریعت، 1/28 تا58،حصہ1۔ ہمارا سلام، ص 48تا54)