چوتھا دن

عنوان

سبقاً سبقاً مدنی قاعدہ۔

’’ثناء‘‘ کی مشق

اذکارِ نماز: درودِ ابراہیم

امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا طریقہ

کھانے، پینے کی سنتیں و آداب

بد کاری

چغلی

صبر

اولیائے کرام رحمۃ اللہ علیہم بڑی شان والے ہیں

مدنی قاعدہ / اذکار نماز

’’امام کے پیچھے نَماز پڑھنے کا طریقہ‘‘ (مردوں کے لیے)

04 احادیث مبارکہ:

(1)امت کو بخشوانے والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا فرمان ہے:جس نے اچھی طرح وضو کیا اور فرض نَماز پڑھنے کےلئے چلا، پھر امام کے ساتھ نَماز پڑھی، اس کے گناہ معاف کردئیے جائیں گے۔

(صحیح ابن خزیمہ،کتاب الامامۃ فی الصلاۃ، باب فضل المشی الی الجماعۃ متوضیا…الخ، 2/373، حدیث:1489)

(2)ہم گنہگاروں کی نیکیاں بڑھانے والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جماعت کے ساتھ نَماز پڑھنے کےلئے چل کر نہ آنے والا اگر جانتا کہ جماعت کے ساتھ نَماز پڑھنے کے لئے چل کر آنے والے کے لئے کیا اَجْر ہے تو وہ ضرور آتا، اگر چہ اسے گھسٹتے ہوئے آنا پڑتا۔ (معجم کبیر، 8/224، حدیث: 7886)

(3)ہماری بھلائی چاہنے والےآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا فرمان ہے: جو شخص (رُکوع اور سجدے وغیرہ میں) امام سے پہلے اپنا سَر اٹھاتا ہے کیا وہ اِس بات سے نہیں ڈرتا کہ اللہ پاک اس کا سَر گدھے کے سَر جیسا کردے؟

(مسلم ، کتاب الصلاۃ، باب النہی عن سبق الامام برکوع او سجود ونحوہما، ص 181، حدیث: 963)

(4)ایک مرتبہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: اِمام تو اس لئے ہوتا ہے کہ تاکہ اس کی اقتدا کی جائے، تو جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ تلاوت کرے تو تم خاموش رہو۔

(ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ، 1/462، حدیث:846)

تکبیر تحریمہ کے4 مدنی پھول:

جو نَماز پڑھنی ہو اُس کی دل میں نیّت کرنا۔ مثلا: نیت کرتا ہوں 2 رکعت نَمازِ فجر فرض، واسطے اللہ پاک کے، منہ میرا کعبہ شریف کی طرف، پیچھے اِس امام کے۔ اور یہ بھی کافی ہے کہ ’’فلاں نَماز کی نیّت کرتا ہوں‘‘۔

(یہ الفاظ زبان سے بھی کہہ لئے جائیں تو زیادہ اچھا ہے)

اِمام کے ’’اَللہُ اَکْبَر‘‘ کہنے کے بعد ’’اَللہُ اَکْبَر‘‘ کہنا

اِتنی آواز سے ’’اَللہُ اَکْبَر‘‘ کہنا کہ اپنے کان سُن لیں، ساتھ والوں کو آواز نہ جائے

دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھا کر ناف کے نیچے باندھنا

قیام کے2مدنی پھول:

’’ثَنا‘‘یعنی سُبْحٰنَکَ اللّٰہُمَّ (مکمل) پڑھنا

’’ثَنا‘‘ کے علاوہ کچھ نہ پڑھنا اور چُپ کھڑا رہنا

نوٹ: ظہر و عصر میں امام صاحب بلند آواز سے قراءت نہیں کرتے پھر بھی ہم بالکل خاموش رہیں گے۔

رکوع کے2 مدنی پھول:

اِمام کے’’اَللہُ اَکْبَر‘‘ کہہ کررُکوع میں جانے کے وقت ،’’اَللہُ اَکْبَر‘‘ کہتے ہوئے رُکوع میں جانا

3 بار ’’ سُبْحٰنَ رَبّیَ الْعَظِیْم ‘‘ کہنا

قومہ کے2مدنی پھول:

اِمام کے ’’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ‘‘ کہہ کر کھڑے ہونے کے وقت’’اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْد‘‘ کہتے ہوئے کھڑا ہونا

کھڑے ہوکر کچھ نہ پڑھنا دو، تین سیکنڈ ٹھہرنا اورہاتھ لٹکے ہوئےرکھنا

سجدے کے2مدنی پھول:

اِمام ’’اَللہُ اَکْبَر‘‘ کہہ کر سجدے میں جائے، تو ’’اَللہُ اَکْبَر‘‘ کہتے ہوئے سجدے میں جانا

3 بار ’’سُبْحٰنَ رَبّیَ الْاَعْلٰی‘‘ کہنا

جلسے کے2 مدنی پھول:

اِمام’’اَللہُ اَکْبَر‘‘ کہہ کر بیٹھے تو’’اَللہُ اَکْبَر‘‘ کہتے ہوئے بیٹھنا

مکمل بیٹھنے کے بعد ’’اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ‘‘ کہنا

دوسرےسجدے کے2مدنی پھول:

اِمام ’’اَللہُ اَکْبَر‘‘ کہہ کر سجدے میں جائے، تو’’اَللہُ اَکْبَر‘‘ کہتے ہوئے سجدے میں جانا

3 بار ’’سُبْحٰنَ رَبّیَ الْاَعْلٰی‘‘ کہنا

نوٹ: جہاں لکھا ہے کہ 3 مرتبہ یہ پڑھیں، وہاں یہ بات یاد رکھیں کہ اگر امام صاحب نماز میں آگے بڑھ گئے تو ہم 3 تسبیح مکمل کئے بغیر امام سے مل جائیں گے (چاہے ہم نے ایک تسبیح پڑھی ہو)۔ ایک تسبیح پڑھنے میں جتنا وقت لگتا ہے اُتنا ٹھہرنا واجب ہے، اس لئے اُتنا ضرور ٹھہریں گے، اگرچہ امام صاحب نَماز میں آگےبڑھ جائیں۔

دوسری رکعت کے لئے اٹھنے کا1مدنی پھول:

امام کے ’’اَللہُ اَکْبَر‘‘ کہہ کر کھڑے ہوتےوقت ،’’اَللہُ اَکْبَر‘‘ کہتے ہوئے کھڑا ہونا

نوٹ: اب پہلی رکعت کی طرح دوسری رکعت مکمل کر لیجئے۔

دوسری رکعت کے دوسرےسجدے کے بعد قعدہ کے2مدنی پھول:

دوسری رکعت کے دوسرے سجدے کے بعد جب اِمام’’اَللہُ اَکْبَر‘‘ کہہ کر بیٹھے تو’’اَللہُ اَکْبَر‘‘ کہتے ہوئے بیٹھنا

اِتنی آواز سے التّحیّات پڑھنا کہ اپنے کان سن لیں

نوٹ: اگر ہم نے اَلتّحیّاتمکمل نہیں پڑھی تھی اور امام صاحب آگے بڑھ گئے تب بھی ہم اَلتّحیّات مکمل کریں گے۔

مدنی پھول: اگر3یا 4رکعت والی فرض نمازیں ہیں، جیسے: مغرب یا ظہر، عصر اور عشا،تو ہم پہلی اور دوسری رکعت کی طرح تیسری اور چوتھی رکعت ادا کریں گے۔

یاد رہے! کسی بھی فرض نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں امام صاحب بلند آواز سے قراءت نہیں کرتے پھر بھی ہم بالکل خاموش رہیں گے۔

قعدۂ اخیرہ کے4مدنی پھول:

آخری رکعت کے دوسرے سجدے کے بعد جب اِمام ’’اَللہُ اَکْبَر‘‘ کہہ کر بیٹھے تو ’’اَللہُ اَکْبَر‘‘کہتے ہوئے بیٹھنا

اِتنی آواز سے التّحیّات پڑھنا کہ اپنے کان سن لیں

اَلتّحیّات کے بعد دُرود شریف پڑھنا

اِس کے بعد دُعاپڑھنا

نوٹ: 4رکعت والی نماز (جیسے: ظہر،عصر ، عشاء) کی تیسری رکعت کے 2 سجدوں کے بعد نہیں بیٹھیں گے۔

سلام پھیرنے کے2مدنی پھول:

امام کے سیدھی جانب سلام پھیرنے کے بعد سیدھی جانب گردن پھیرنا اور’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللہِ وَبَرَکَاتُہ‘‘ کہنا

امام کے الٹی طرف سلام پھیرنےکے بعد اُلٹی طرف گردن پھیرنا

اور’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللہِ وَبَرَکَاتُہ‘‘ کہنا

نوٹ: اگرہم نےاَلتّحیّاتمکمل نہیں پڑھی اور اِمام نے سلام پھیر دیا تب بھی ہم اَلتّحیّات مکمل کرنے کے بعد سلام پھیریں گے۔

نوٹ: اسلامی بہن اکیلے ہی نماز پڑھے گی۔

**********

’’اِسلام‘‘ کی خوبیاں

پیارے اِسلامی بھائیو! اِسلام کی ایک عظیم خوبی یہ ہے کہ زندگی میں پیش آنے والے ہر طرح کے حالات اور مواقع پر اِسلام ہماری مکمّل راہ نمائی کرتا ہے۔ کسی بھی انسان کو زندہ رہنے کےلئے کھانے پینے کی لازمی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ ضرورت بعض لوگوں کو دن میں 2 مرتبہ، بعض کو 3 مرتبہ اور کچھ کو تو اِس سے بھی زیادہ بار پیش آتی ہے۔ آج کی دنیا میں فوڈ کلچر (Food Culture) بہت بڑھتا چلا جارہا ہے۔ نت نئے کھانے، انواع و اقسام کی ڈِشِز (Dishes) اور اُنہیں کھانے کے منفرد انداز آئے دن متعارف کروائے جارہے ہوتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو آج کی دنیا میں فوڈیز(Foodies) یعنی کھانے پینے کے شوقین کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ایسے لوگ جینے کے لئے نہیں کھاتے بلکہ کھانے کے لئے جیتے ہیں۔

دینِ اِسلام ہمیں ہر معاملے میں میانہ روی اختیار کرنے (یعنی Moderation) کا درس دیتا ہے۔ہمیں ہر حلال چیز (اپنی شرائط کے ساتھ) کھانےپینےکی اجازت دی گئی ہے لیکن ساتھ اپنی صحّت کی حفاظت کا حکم بھی دیا گیاہے۔ اور ہر عقلمند شخص جانتا ہے کہ زیادہ کھانا، کھائے چلے جانا اور کھاتے ہی رہنا انسان کی صحّت کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں فوڈ کلچر بڑھنے کے ساتھ ساتھ نئی نئی بیماریوں میں بھی اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور کھانوں کے ساتھ ساتھ دواؤں کا خرچہ بھی تیزی کے ساتھ اُڑان بھرتا نظر آرہا ہے۔

’’علمِ طِب آدھی آیت میں۔۔۔۔‘‘

صُوفی بزرگ حضرت علی بن حسین واقِد رحمۃ اللہ علیہ کو ایک عیسائی (Christen) ڈاکٹر نے کہا: تمہارے قرآن میں ’’علمِ طِب(Medical)‘‘ بالکل بھی نہیں ہے، اس لئے دینِ اِسلام ایک مکمل دین نہیں ہے۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: اللہ پاک نے سارا علمِ طِب قرآنِ کریم کی آدھی آیت میں بیان فرمادیا ہے، چنانچہ اِرشاد ہوتا ہے: (ترجمہTranslation:) اور کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ بڑھو۔ (ترجمۂ کنز العرفان) (پ8، بنی الاعراف:31)

یہ سب سُن کر وہ عیسائی ڈاکٹر حیران رہ گیا اور کہنے لگا: یقیناً تمہارے قرآن نے (قدیم یونان کے ماہر ترین ڈاکٹر)جَالِیْنُوس کے لئے طِب کا کوئی مسئلہ نہیں چھوڑا۔ (روح البیان، سورۃ الاعراف، تحت الاٰیۃ:3،3/155ملتقطاً)

پیارے اسلامی بھائیو! معلوم ہوا کہ کھانے پینے میں میانہ روی(یعنی Moderation) اختیار کرنا انسان کو کئی بیماریوں سے بچاتا اور صحّت مند زندگی فراہم کرتا ہے۔ کھانے پینے میں اللہ پاک نے جہاں ہماری زندگی کا تحفظ رکھا ہے وہاں طرح طرح کی لذّتیں بھی رکھی ہیں۔ ہم شریعت کے مطابق جتنا اور جیسے کھائیں منع نہیں ہے لیکن اگر اس جائز کام میں اچھی نیتیں، پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی سنتیں اور بزرگوں کے بیان کردہ آداب کا بھی لحاظ رکھ لیا جائے تو ہمیں بہت ثواب مل سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہمارا کھانا پینا بھی ثواب کا کام بن سکتا ہے۔ اس لئے آئیے! چند سنتیں اور آداب سنتے ہیں:۔

کھانے پینے کی سنتیں و آداب

e ہر کھانے سے پہلے اپنے ہاتھ کلائی کے جوڑ تک دھولیجئے e دونوں ہاتھ دھونا اور کلی کرنا ’’کھانے کا وُضو‘‘ کہلاتا ہے،اس سے ہم جراثیم سے بچیں گے e کھانا کھاتے وقت اُلٹا گھٹنا بچھا کر سیدھا گھٹنا کھڑا کرلیجئے، اس طرح ہم موٹاپے سے بچیں گے e کھانے سے پہلے جوتے یا چپّل وغیرہ اتار لیجئے e کھانے سے پہلے ’’بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم‘‘ پڑھئے، اس طرح شیطان ہمارے کھانے میں شریک نہیں ہوگا اور کھانے میں برکت ہوگی e اگر کھانے کے شروع میں ’’بِسْمِ اللہ‘‘ پڑھنا بھول جائیں تو یاد آنے پر ’’بِسْمِ اللہِ اَوَّلَہ‘ وَاٰخِرَہ‘‘‘ پڑھ لیجئے e کھانا سیدھے ہاتھ سے اور اپنے سامنے سے کھائیے e کھانے میں کسی قسم کا عیب (یعنی خرابی) مت نکالئے، (مثلاً: ذائقہ اچھا نہیں ہے وغیرہ) e پانی ہمیشہ بیٹھ کر، روشنی میں دیکھ کر اور ’’بِسْمِ اللہ‘‘ پڑھ کر سیدھے ہاتھ سے پیجئے e پانی 3 سانس میں پیجئے اور ہر مرتبہ گلاس منہ سے ہٹا کر سانس لیجئے e پینے کے بعد ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہ‘‘ کہئے e چائے وغیرہ پینی ہو تب بھی ’’بِسْمِ اللہ‘‘ پڑھ کر پیجئے اور آخر میں ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہ‘‘ کہئے e ہوسکے تو کچھ بھی کھانے یا پینے سے پہلے اچّھی اچّھی نیتیں کرنے کا معمول بنالیجئے۔ اِنْ شَاءَ اللہ ڈھیروں ثواب کے حق دار ہوں گے۔ (اِس کےلئے فیضانِ سنّت کے باب ’’آدابِ طعام‘‘ کا مطالعہ کیجئے)

(ماخوذ ازسنتیں اور آداب، ص 89۔ 96)

**********

’’بد کاری‘‘

بدکاری کی تعریف:

بدکاری سے مراد یہ ہے کہ ایسے طریقے سے اپنی شہوت (یعنی خواہش)کو پورا کرنا جس سے دین یا فِطرت (یعنی عقل)منع کرتی ہو۔ جیسے: مرد کا عورت سے بغیر نکاح کے تعلق قائم کرنا، یا مرد کا مرد اور عورت کا عورت کے ساتھ بُراکام کرنا۔

اللہ پاک کا ارشاد:

(ترجمہTranslation:) اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ، بیشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی برا راستہ ہے۔

(ترجمۂ کنز العرفان) (پ15، بنی اسرائیل:32)

عُلَما فرماتے ہیں: اِسلام بلکہ تمام آسمانی مذاہِب میں بدکاری کو بدترین گناہ اور جُرم قرار دیا گیا ہے۔ یہ اِنتِہا درجے کی (بہت) بے حیائی (کی بات ہے) اور فتنہ و فساد کی جڑ ہے۔ بلکہ اب تو ’’ایڈز (Aids)‘‘ کے خوفناک مرض کی شکل میں اس کے دوسرے نقصانات بھی سامنے آرہے ہیں۔ جس ملک میں بدکاری کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے وہاں ’’ایڈز (Aids)‘‘ پھیلتا جارہا ہے۔ یہ گویا دنیا میں عذابِ الٰہی کی ایک صورت ہے۔

(ماخوذ ازصراط الجنان، 5/454)

بد کاری کے متعلق3احادیث:

(1)مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا فرمان ہے: میری اُمّت اُس وقت تک بھلائی پر رہے گی جب تک اُن میں ’’ناجائز بچے‘‘ عام نہیں ہوں گے۔ جب اُن میں ’’ناجائز بچے‘‘ عام ہوجائیں گے تو اللہ پا ک انہیں عذاب میں مبتلا فرمادے گا۔ (مسند احمد،حدیث میمونۃ بنت الحارث الہلالیۃ زوج النبیﷺ، 10/246، حدیث:26894)

(2)اوردوسری حدیث میں فرمایا: شطرنج کھیلنا اور ناپ تول میں کمی کرنا ’’قومِ لُوط‘‘ کے کام ہیں، ہَلاکت ہے اُس شخص کے لئے جو ایسے کام کرے۔ ’’قومِ لُوط‘‘ کا سب سے بڑا گناہ عورت کا عورت سے اور مرد کا مرد سے بدکاری کرنا تھا،جب اُنہوں نے بے حیائی شروع کردی اور اللہ پاک کی نافرمانی کرنے لگے تو اللہ پاک نے اُن کے شہر کو پلٹ دیا اور آسمان سے پتّھروں کی بارش برسا کر اُنہیں عذاب دیا۔

(قرۃ العیون و مفرح القلب المحزون، ص390)

(3)اسی طرح ایک حدیث میں کچھ یوں ارشاد فرمایا: اے جوانو! تم میں جو کوئی نکاح کرسکتا وہ نکاح کرے، کیونکہ اس سے نگاہ جھکتی اور شرمگاہ کی حفاظت ہوتی ہے۔ اور جو نکاح نہ کرسکتا ہو وہ روزے رکھے، کیونکہ روزہ شہوت کو توڑنے والا ہے۔ (بخاری، کتاب النکاح، باب من لم یستطع الباءۃ فلیصم، 3/422، حدیث:5066)

بدکاری کے حوالے سے چند مسائل:

خیال ہی خیال میں کسی عورت سے بدکاری کرنا بھی حرام ہے اور یہ دل کے زنا میں داخل ہوگا۔(صراط الجنان 5/463)مرد سے بدکاری حرام قطعی ہے اس کا حلال جاننے والا کافر ہے۔(مراٰۃ المناجیح،۵/300)

بد کاری کے نقصانات

پیارے اسلامی بھائیو! cبدکاری سخت حرام اور اللہ و رسول کی نافرمانی والا کام ہے cبدکاری بے حیائی ہے cبدکاری سے شیطان خوش ہوتا ہے cبدکاری چہرے کی رونق ختم کردیتی ہے cبدکاری محتاج اور فقیر بنادیتی ہے cبدکاری عمر گھٹادیتی ہے cبدکاری خاندانی نظام کو تباہ کرتی ہے cبدکاری نسلِ انسانی کے خاتمے کا ذریعہ ہے cبدکار شخص کی اولاد اور خاندان کے ساتھ بھی بُرا سلوک کیا جاتا ہے cبدکاری سے آتشک (Syphilis)، سوزاک(Gonorrhea)، سیلان(Leucorrhoea)، خارِش(Scabies)، خطرناک پھوڑے (Perilous Boils) یہاں تک کہ ایڈز (Aids)جیسی ہلاک کرنے والی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں c بدکاری نسلِ انسانی کے لئے زہر ہے cبدکاری گھریلو امن کو ختم کرنے والی ہے cبدکاری معاشرے کی تباہی کاسبب ہےc بدکار کے خلاف قیامت کے دن جسم کے اعضا گواہی دیں گےcبدکاری کرنے والوں پر جہنمی بھی لعنت کریں گےcبدکار شخص جنت میں داخل ہونے سے روک دیا جائے گا cبدکارشخص کو فرشتے سخت عذاب دیں گے۔

بدکاری کی عادت ہو تو کیسے ختم کی جائے؟

x اللہ پاک سے ڈرتے ہوئے سچّی توبہ کیجئے اور توبہ پر قائم رہنے کی دعا کیجئے xبدکاری کے دنیا اور آخرت کے نقصانات ہر دم پیش نظر رکھئے xکوئی شرعی مجبوری نہ ہونے کی صورت میں نکاح کی ترکیب بنالیجئےxکثرت سے روزے رکھئے xایسی دوستی، محفل یا ماحول سے خود کو فورا دور کرلیجئے جو بدکاری کا سبب بنتی ہو xصحت کی عظیم نعمت کی قدر کیجئے اور شریعت کے خلاف کام کرنے سے خود کو بچائیے xنگاہیں جھکائے رکھنے عادت بنائیے کہ پیارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی نگاہیں اکثر جُھکی رہتی تھیں xغیر عورتوں کی دوستی یا ان کے ساتھ میل جول سے دور رہئے xبدکردار دوستوں کے بجائے عاشقان رسول کے ساتھ رہ کر سنتیں سیکھنے اور پھیلانے میں مصروف رہئے xہر وقت یہ ذہن میں رکھئے کہ ’’ اللہ دیکھ رہا ہے‘‘ xانٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کا صرف ضروری استعمال کیجئے۔

نوٹ: بدکاری سے بچنے کا ذہن بنانے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی یہ کتابیں ’’ہمیں کیا ہوگیاہے‘‘ ’’نیکیوں کی جزائیں اور گناہوں کی سزائیں‘‘اور ’’قوم لوط کی تباہ کاریاں‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔

**********

’’چغلی‘‘

چغلی کی تعریف:

لوگوں میں لڑائی کروانےکےلئے اُن کی باتیں ایک دوسرے کو بتانا چغلی کہلاتا ہے۔

(شرح نووی، کتاب الایمان، باب بیان غلظ تحریم النمیمۃ، جزء2، 1/128)

چغلی کی مثال:

گاہَک (Customer) ایک شخص کی دُکان (Shop) سے ہوکر دوسرے کی دُکان پر پہنچے اور اُنہیں آپس میں لڑوانے کے لئے دوسرے دکاندار سے کہے: وہ (پہلا)دُکان دار تمہارے مال کی بُرائی کر رہا تھا۔

اللہ پاک کا ارشاد:

(ترجمہTranslation:) سامنے سامنے بہت طعنے دینے والا، چغلی کے ساتھ اِدھر اُدھر بہت پھرنے والا۔ (ترجمۂ کنز العرفان ) (پ29، القلم:11)

عُلَما فرماتے ہیں: اس آیت میں 2 برائیاں بیان کی گئی ہیں: (1)لوگوں کے سامنے ان کے بہت زیادہ عیب (یعنی کمزوریاں) نکالنا یا طعنے دینا (یعنی باتیں سنانا) (2)اِدھر اُدھر بہت زیادہ چغلیاں کرتے پھرنا۔

(صراط الجنان، 10/288ملخصاً)

چغلی کے بارے میں 2 احادیث:

(1)آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا عبرت والا فرمان ہے: چغل خور جنّت میں نہیں جائے گا۔

(بخاری، کتاب الادب، باب مایکرہ من النمیمۃ، 4/115، حدیث:6056)

(2)ایک مرتبہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک کے بُرے بندے وہ ہیں جو چغل خوری کرتے، دوستوں میں جدائی ڈالتے اور نیک لوگوں کے عیب تلاش کرتے ہیں۔

(مسند احمد، مسند الشامیین، 6/291، حدیث: 18020)

چغلی پر ابھار نے والی باتیں :

(۱)جس کی چغلی کی جا رہی ہے اس کے بارے میں برا ارادہ ہونا (۲)جس کی چغلی کی جا رہی ہے اس سے نفر ت ہونا یا(۳)فضول باتوں کی عادت ہونا۔

چغلی کے نقصانات:

پیارے اسلامی بھائیو! c چغلی محبّت ختم کرتی ہے c چغلی سے لڑائیاں ہوتی ہیںc چغلی سے دشمنی کی فضا قائم ہوتی ہےc چغلی احترامِ مسلم کا خاتمہ کرتی ہے c چغلی خاندانوں کو تباہ کرتی ہےc چغلی قتل و غارت تک لے جاتی ہےc چغلی غیبت و جھوٹ کی طرف لے جانے والی ہےc چغلی اللہ و رسول کی نافرمانی کا سبب ہے cچغلی جہنّم میں لے جانے والا کام ہےc چغلی بندوں کے حقوق ضائع کرنے کا سبب ہے۔

اِسلام نے چغلی سے روک کر ہمیں کیا دیا؟

c اِسلام نے چغلی سے روک کر معاشرے کو محبّت کا تحفہ دیاc اِسلام نے چغلی سے روک کر لڑائیاں رکوائیںc اِسلام نے چغلی سے روک کردشمنیاں ختم کرنے کی راہ کھولیc اِسلام نے چغلی سے روک کر احترامِ مسلم کی فضا قائم کیc اِسلام نے چغلی سے روک کر خاندانوں کی حفاظت کی۔

چغلی سے بچنے کے چند علاج:

a اللہ پاک سے دعا کیجئے کہ وہ چغلی کرنے اور سننے سے بچائے a جتنا ہوسکے دوسروں کے معاملات میں پڑنے کے بجائے اپنے کام سے کام رکھئے a فضول گوئی سے بچنے کی عادت بنائیے اور ضروری گفتگو بھی کم سے کم الفاظ میں کیجئے a لوگوں کی باتیں معلوم کرنے کی جستجوختم کیجئے اور اپنی اصلاح کی فکر کیجئے a چغل خور کو ملنے والے عذابات ذِہن میں رکھئے اور خود کو جنّت کی محرومی سے بچائیے a سلام و مصافحہ کرنے کی عادت بنائیے، اس سے بغض و کینہ دور ہوتا ہے اور محبّت بڑھتی ہے a ہر مسلمان کا احترام کیجئے اور اس کی دنیا تباہ کرنے کے لئے اپنی آخِرت برباد مت کیجئے a چغل خوروں کی دوستی چھوڑ کر سنجیدہ اور محتاط گفتگو کرنے والے عاشقانِ رسول کی صحبت اختیار کیجئے a لوگوں کو لڑوانے کے بجائے ان کے آپسی اختلافات اور نفرتیں ختم کیجئے اور امن والا معاشرہ بنانے میں اپنا کردار ادا کیجئے۔

محبّتوں کے چور!!

چغل خور! چغل خور!

نوٹ: چغلی کے بارے میں مزید جاننے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ’’احیاء العلوم جلد 3 صفحہ 468 تا 480‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔

**********

’’صبر‘‘

صبر کی تعریف:

دینِ اِسلام نے جس کام کو کرنے کا حکم دیا ہو اس پر عمل کرنا یا جس کام سے دینِ اِسلام نے دور رہنے کا حکم دیا ہو اس سے بچے رہنا ’’صبر‘‘ کہلاتا ہے۔ اسی طرح عقل جس کام کو کرنے کا کہے اُس کام کو کرنا یا جس کام کو عقل چھوڑدینے کا مشورہ دے اُس کام کو چھوڑدینا بھی ’’صبر‘‘ کہلاتا ہے۔ (مفردات امام راغب، باب الصاد، ص273مفہوما)

صبر کے بارے میں قرآن کی آیت:

(ترجمہTranslation:) اے ایمان والو! صبر اور نَماز سے مدد مانگو، بیشک اللہ صابِروں کے ساتھ ہے۔

(ترجمۂ کنز العرفان ) (پ02، البقرۃ:153)

عُلَما فرماتے ہیں:صبر سے مدد طلب کرنا یہ ہےکہ عبادات کی ادائیگی، گناہوں سے رُکنے اور نفسانی خواہشات کو پورا نہ کرنے پر صبر کیا جائے اور نَماز چونکہ تمام عبادات کی اصل اور اَہلِ ایمان(یعنی مسلمانوں) کی معراج ہے اور صبر کرنے میں بہترین مُعاوِن ہے اِس لئے اس سے بھی مدد طلب کرنے کا حکم دیا گیا اور ان دونوں کا بطورِ خاص اِس لئے ذِکْر کیا گیا کہ بدن پر باطِنی(یعنی دل کے) اعمال میں سب سے سخت صبر اور ظاہِری اعمال میں سب سے مشکل نَماز ہے۔ (صراط الجنان، 1/245)

صبر کے بارے میں حدیث :

خوشخبریاں سنانے والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا فرمان ہے کہ اللہ پاک فرماتا ہے: جب میں اپنے کسی بندے کو اس کے جسم، مال یا اولاد کے ذریعے آزمائش میں مبتلا کروں، پھر وہ صَبر جمیل کے ساتھ(یعنی شکوہ شکایت اور واویلا نہ کرتے ہوئے) اُس کا استقبال کرے تو قیامت کے دن مجھے حیا آئے گی کہ اس کے لئے میزان قائم کروں یا اس کا نامۂ اعمال کھولوں۔(یعنی نہ میں اُس کےلئے میزان قائم کروں گا اور نہ ہی نامۂ اعمال کھولوں گا)۔

(التیسیر بشرح جامع الصغیر،2/187۔نوادر الاصول، الاصل الخامس والثمانون والمائۃ، 2/700، حدیث: 963)

صبر کی عادت بنانے کے لئے چند مدنی پھول:

kصبر کے فضائل کا مطالعہ کیجئے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کیجئے kاللہ پاک سے گڑگڑا کر دعا کیجئے کہ وہ صبر کی توفیق عطا فرمائے kبے صبری سے بچنے کےلئے عاجزی پیدا کیجئے اور تکبر سے اپنا دامن چھڑائیے kجلد بازی سے بچنے کی عادت بنائیے کہ جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے kمعاف کرنےکی عادت بنائیے، اس سے صبر پر قائم رہنے اور بدلہ لینے سے بچنے میں مدد ملے گی kمصیبت میں بھی اللہ پاک کی نعمتوں کو تلاش کیجئے kدنیا میں آزمائش وامتحان ہےاورصبر کامیابی کی چابی ہے kآزمائشیں اور مصیبتیں انبیا علیھم السّلام کی خدمت میں حاضِر ہوئیں تو اُنہوں نے بھی صبر فرمایا k کربلا کے میدان میں اِمامِ حسین رضی اللہ عنہ کے خاندان پر آنے والی مصیبتیں یاد کیجئے اور اپنی مصیبتوں پر صبر کیجئے۔

نوٹ: صبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ’’احیاء العلوم جلد 4 صفحہ 184 تا 239‘‘کامطالعہ مفید رہے گا۔

**********

اللہ پاک کے احسان

پیارے اسلامی بھائیو! ہم اگر اپنی اِس دنیا پر غور کریں تو ہمیں محسوس ہوگا کہ یہ دنیا ایک مکان جیسی ہے جس میں ہماری ضرورت کی ہر نعمت موجود ہے۔ آسمان جیسی چھت ہے، زمین جیسا بستر ہے، ستاروں جیسے چراغ ہیں اور زمین کی تہہ میں خزانوں کے انبار ہیں۔ ہر طرح کا سبزہ، اناج اور جڑی بوٹیاں ، اِسی طرح خشکی اور تَری کے ہر قسم کے جانور بھی اِنسان ہی کی جملہ ضروریات کو پورا کرتے نظر آتے ہیں۔ آسمان ہی کو لیں تو اِس میں اللہ پاک کی طرح طرح کی نعمتیں ہیں:۔

r اللہ کریم نے آسمان کو رنگ ہی اتنا پیارا عطا کیا ہے جو نَظَر کے لئے اچھا بھی ہے اور نظر کو تیز بھی کرتا ہے rاگر آسمان کوروشنیوں سے بنایا جاتا تو دیکھنے والے کی نَظَر کو نقصان ہوسکتا تھا r انسان جب آسمان کی لمبائی کو دیکھتا ہے تو دیکھتا ہی رہ جاتا ہے rخصوصاً جب آسمان پر تاروں کی چادر پھیلی ہوئی ہو اور چاند اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہو تو اُس وقت آسمان کا نظارہ دیکھنے جیسا ہوتاہے۔

اللہپاک ارشاد فرماتا ہے: (ترجمہTranslation:) تو کیا انہوں نے اپنے اوپر آسمان کو نہ دیکھا، ہم نے اسے کیسے بنایا اور سجایا اور اس میں کہیں کوئی شگاف (یعنی کمی اور عیب)نہیں۔ (ترجمۂ کنز العرفان ) (پ26، قٓ:6)

r مختلف سلطنتوں کے بادشاہ بھی جب اپنے محلّات کی چھت بنواتے ہیں تو خوب نقش و نگار اور زینت کرواتے ہیں، لیکن اُن سجی سجائی چھتوں کو دیکھ دیکھ کر بھی انسان اُ کتاجاتا ہے اور طبیعت پریشان ہوجاتی ہے۔ لیکن اللہ پاک کی قُدرت دیکھئے کہ آسمان کی طرف جب بھی نظر دوڑائی جائے ہمیشہ تازگی اور فرحت (یعنی خوشی) ہی نصیب ہوتی ہے اور انسان کبھی بھی اِس نظارے سے اُکتاتا نہیں ہے۔ نیز اُس کے دل میں اللہ پاک کی عظمت اور شان بھی بڑھتی چلی جاتی ہے r عقلمندوں کا کہناہے: تیرے گھر سے جتنا آسمان نظر آتا ہے اتنی ہی نعمتیں اور راحتیں تجھے حاصل ہوتی ہیں rآسمان میں یہ بھی خاصیت ہے کہ یہ بے شمار چمکتے دمکتے ستاروں، مختلف سیّاروں(Planets) اور چاند و سورج کو نہ صرف سنبھالے ہوئے ہے بلکہ یہ سب آسمان میں ادھر سے ادھر گھومتے بھی رہتے ہیں جس سے راستوں وغیرہ کا بھی پتہ چلتاہے۔ اللہپاک ارشاد فرماتا ہے:

(ترجمہTranslation:) کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے ایک دوسرے کے اوپر کیسے سات آسمان بنائے؟ اور ان میں چاند کو روشن کیا اور سورج کو چراغ بنایا۔ (ترجمۂ کنز العرفان ) (پ29، نوح:15۔16)

r کہاجاتا ہے کہ آسمان کو دیکھنے سے 10 فائدےحاصل ہوتے ہیں:۔ (1)غموں کا خاتمہ ہوتا ہے (2)وسوسوں میں کمی ہوتی ہے (3)خوف کی کیفیت ختم ہوتی ہے (4) اللہ پاک کی یاد تازہ ہوتی ہے (5)دل میں اللہ پاک کی عظمت بڑھتی چلی جاتی ہے (6)برے خیالات ختم ہوجاتے ہیں (7)پاگل پن کے مرض میں کمی آتی ہے (8)دیدارِ الٰہی کا شوق رکھنے والوں کو تسلّی ملتی ہے (9)محبّتِ اِلٰہی میں گُم رہنے والوں کو سُکون حاصل ہوتا ہے (10)دُعا کا قبلہ بھی آسمان ہی ہے (یعنی دُعا میں ہتھیلیاں کھول کر آسمان کی طرف رُخ کیا جاتا ہے)۔

(ماخوذ از مجموعۃ رسائل امام غزالی، الحکمۃ فی مخلوقات اللہ، ص8)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب

صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

میرے نبی صلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی شان

اللہ پاک کے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَکے چچا جان کے شہزادے اور بہت ہی پیارے صحابی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: بچپن شریف میں ایک بار پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مکّہ شریف کے پہاڑوں کے راستے میں اپنے دادا جان حضرتِ عبدُ الْمُطَّلِبرضی اللہ عنہ سے جُدا ہوگئے۔ کافی تلاش کے بعد دادا جان مکّہ شریف واپس آگئے اور کعبہ شریف کے پردوں سے لپٹ کر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے مِل جانے کے لئے رو رو کر دعائیں مانگنے لگے۔ اِسی دوران مشہور غیر مسلم ابو جَہْل اونٹنی پر سوار ہوکر اپنی بکریوں کے ریوڑ (Herd of goats) کو لے کرواپس آرہا تھا، اُس نے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو دیکھ لیا، ابو جَہْل نے اپنی اونٹنی بٹھائی اور آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو اپنے پیچھے بٹھا کر اونٹنی کو اٹھانا چاہا تو وہ نہ اُٹھی! پھر جب اپنے آگے بٹھایا تو اونٹنی کھڑی ہوگئی اورایسا لگا جیسے ابو جَہْل سے کہہ رہی ہو: ارے بے وقوف! یہ تو امام ہیں، مقتدی کے پیچھے کیسے ہوسکتے ہیں! (یعنی اِن کا مقام تو یہ ہے کہ یہ آگے ہوں، پیچھے کیسے ہوسکتے ہیں!!)

حضرت عبد اللہ بن عباس مزید فرماتے ہیں: اللہ پاک نے حضرتِ موسٰی کو جس طرح فرعون کے ذریعے اُن کی امّی جان تک پہنچایا اِسی طرح ابو جَہْل کے ذریعے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو ان کے دادا جان تک پہنچایا۔

(روح المعانی، جزء30، ص532)

پیارے اسلامی بھائیو! آپ نے اللہ پاک کی قدرت دیکھی! ابو جَہْل کے ذریعے اللہ پاک نے اپنے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو اُن کے دادا جان تک پہنچادیا۔ یقیناً اللہ پاک جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جانور بھی پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی تعظیم کرنا فرض سمجھتے ہیں۔

اپنے مولیٰ کی ہے بس شان عظیم جانور بھی کریں جن کی تعظیم

سَنگ کرتے ہیں ادب سے تسلیم پیڑ سجدے میں گِرا کرتے ہیں

(حدائق بخشش، ص112)

یعنی ہمارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَکی پیاری پیاری شان تو دیکھو! جانور اُن کا احترام کرتے ہیں، پتّھر ادب سے سلام کرتے ہیں اور درخت اُنہیں سجدہ کرتے ہیں۔

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب

صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

’’اولیائے کِرام رَحمۃُ اللہ عَلَیْہِم کی شان‘‘

z ’’وِلایت‘‘ ایک بہت خاص مقام ہے جو اللہ پاک اپنے خاص بندوں کو عطا فرماتا ہے zوِلایت صرف اللہ پاک کے فضل و کَرَم سے ملتی ہے، سخت اور مشکل اعمال (یا عبادت) سے حاصل نہیں ہوتی zبعض ولیوں کو بچپن ہی سے ولایت مل جاتی ہے (جیسے: غوثِ پاک شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ) zوِلایت کسی جاہل کو نہیں ملتی،عالم ہی کو ولی بنایا جاتا ہے zپچھلی امتوں میں بھی اللہ پاک کے ولی ہوتے تھے، لیکن اِس اُمّت کے اولیائے کِرام پچھلی اُمّتوں کے ولیوں سے افضل ہیں zہر ولی شریعت کا پابند ہوتا ہے، کسی بھی ولی کو شریعت کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت نہیں ہوتی z جو چیز، جس طرح عام مسلمانوں پر فرض ہے، اُسی طرح ولی پر بھی فرض ہے zولی در حقیقت نبی کے خلیفہ ہوتے ہیں اور اللہ پاک نبی کے وسیلے سے ہی اُنہیں اختیارات اور طاقت عطا فرماتا ہے۔ (جیسے: ایک مرتبہ حضرتِ علی رضی اللہ عنہ نے ایک غلام کا کٹا ہوا ہاتھ جوڑدیا تھا۔ (تفسیر کبیر،7/434) حضرت اِمام حسین رضی اللہ عنہ کا لُعاب (یعنی تھوک) ملا ہوا پانی جب کنویں میں ڈالا گیا تو کنویں کاپانی اُبل پڑا (یعنی اوپر آگیا) تھا۔ (طبقات الکبری لابن سعد،5/110) اسی طرح سلسلۂ قادریہ کے بزرگ حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ کو ایک مرتبہ طواف کرنے کی خواہش ہوئی تو آپ راتوں رات اپنے شہر سے مکہ شریف پہنچے اور طواف کرکے واپس تشریف لے آئے۔ (جامع کرامات اولیاء،2/491) یوں ہی سلسلہ قادریہ کے ایک اور بزرگ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بار ہوا میں ہاتھ بڑھایا تو آپ کے ہاتھ میں زعفران آگیا اور آپ نے اُسے لوگوں کے سامنے رکھ دیا۔ (جامع کرامات اولیاء،2/12)) z اللہ پاک اپنے فضل سے نبی کے وسیلے سے ولی کو چھپی ہوئی باتوں کا علم بھی عطا فرماتا ہے (جیسے: حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ مدینہ شریف میں خطبہ کے دوران عراق کے ایک علاقے ’’نَہاوند‘‘ میں موجود حضرت ِسارِیہ رضی اللہ عنہ کو پکارا: یَاسَارِیَۃَ الْجَبَل (یعنی اے ساریہ! پہاڑ کی طرف سے ہوشیار) اور یوں اُنہیں پہاڑ کے پیچھے چُھپے حملہ آوروں سے خبردار کیا۔ یہ آپ رضی اللہ عنہ کی کرامت تھی کہ اتنی دور سے عراق کے ایک علاقے میں ہونے والی جنگ کا حال معلوم بھی کرلیا اور وہیں سے حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ کو بتابھی دیا) z اولیائے کِرام اللہ پاک ہی کی عطا سے کرامت بھی دکھاتے ہیں، یعنی ایسی چیزیں کرتے ہیں جن کو عام انسان کی عقل تسلیم نہیں کرتی۔جیسے:مردہ زندہ کردینا، پیدائشی اندھے کو آنکھیں دے دینا،سینکڑوں ہزاروں میل کا فاصلہ چند لمحوں میں طےکرلیناوغیرہ۔ یاد رہے کہ ولی کو بہت طاقت حاصل ہوتی ہے مگر جتنی بھی طاقت ہو سب اللہ ہی نے دی ہے، اللہ کی قدرت سب سے زیادہ ہے اور اللہ کی قدرت ایسی ہے کہ وہ اُسی کی قدرت ہے، اُسے کسی اور نے نہیں دی (چنانچہ۞مدرسہ شامیہ کے مُدرِّس حضرتِ شیخ زین الدین شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ کی دعا کی برکت سے چھت سے گر کر مرجانے والا بچّہ زندہ ہوگیا۔ (حجۃ اللہ علی العالمین،ص609 ملخصاً) ۞مشہور ہے کہ بغداد شریف میں چار بزرگ ایسے ہوئے ہیں جو پیدائشی اندھوں اورکوڑھ کے مریضوں کو اللہ پاک کے حکم سے شفادیتے تھے اوراپنی دعاؤں سے مُردوں کوزندہ کردیتے تھے، اُن میں سے ایک حضور غوثِ پاک شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ بھی تھے۔ (بہجۃ الاسرار، ص 124) ۞منقول ہے کہ طرسوس کی جامع مسجد میں ایک ولی تشریف فرما تھے۔ اُنہیں حَرَمِ کعبہ کی زیارت کی خواہش ہوئی، چنانچہ اُنہوں نے اپنا سَرگریبان میں ڈالا اور چند لمحوں میں گریبان سے باہر نکالا تو وہ حَرَمِ کعبہ میں موجود تھے۔ (حجۃ اللہ علی العالمین،ص609)) z اولیا ئے کِرام اللہ پاک ہی کی عطا اور اُسی کے فضل و کَرَم سے ہماری مدد بھی فرماتے ہیں zولیوں کے مزارات پر حاضری دینا خیر و بَرَکت اور سعادت والا کام ہے z اللہ پاک کی عطا سے اولیا ئے کِرام دور سے پکارنے والوں کی پکار بھی سن لیتے ہیں، پہلے کے لوگ بھی ولیوں کو مشکل میں پکارا کرتے تھے(جیسے: رُوم کی سر زمین سے جب ایک مجاہد نے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے صحابی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو پکارا تو آپ نے مدینہ شریف میں اُس کی آواز سنی اور 2 مرتبہ ’’لَبَّیْک‘‘یعنی ’’میں حاضر ہوں‘‘ فرمایا۔ (ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء، 4/109) اِسی طرح ایک مرتبہ کسی عورت نے اپنی عزّت خطرے میں دیکھ کر حضور غوثِ پاک شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو پکارا، آپ رحمۃ اللہ علیہ اُس وقت اپنے مدرے میں وُضو فرمارہے تھے، آپ نے اس عورت کی فریاد بھی سنی اور اُس کی مدد بھی فرمائی۔ (تفریح الخاطر، ص37)) ولیوں کا دور سے سننا اور لوگوں کی مدد کرنا سب اللہ پاک ہی کی مدد اور اُسی کا کَرَم ہے، در حقیقت اللہ پاک کے علاوہ کوئی اور مدد کر ہی نہیں سکتا، اولیائے کِرام اِس مدد کا ذریعہ ہیں۔ اللہ پاک مدد کرنے کے لئے کسی کا محتاج نہیں، لیکن اللہ پاک نےقرآنِ پاک میں اپنی جانب وسیلہ ڈھونڈنے کافرمایا ہے، اِسی لئے مسلمان ولیوں سے مدد مانگتے ہیں zولی اپنی قبروں میں زندہ ہوتے ہیں، انہیں رِزْق بھی دیا جاتا ہے اور ان کا علم بلکہ سننے اور دیکھنے کی کیفیت بھی دنیا کے مقابلے میں بڑھ جاتی ہے۔لہٰذا یہ وسوسہ نہ آئے کہ مَرے ہوئے کو پکارنا کیسا؟ بلکہ یہ اللہ پاک کے حکم سے زندہ ہیں اور مدد کرتے ہیں، یہاں تک کہ اللہ پاک نے شہیدوں کو قرآنِ پاک میں زندہ فرمایا ہے (حکایت: حضرتِ سیِّدُنا ابو علی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں نے ایک فقیر (یعنی اللہ کے ایک نیک بندے) کو قَبْر میں اُتارا، جب کفن کھولا اور اُن کا سَر خاک (یعنی مٹّی) پر رکھ دیا کہ اللہ تعالیٰ اُن کی غُربَت (یعنی بیکسی) پر رَحم کرے، فقیر نے آنکھیں کھول دیں اور مجھ سے فرمایا: اے ابو علی! تم مجھے اُس (ربِّ کریم) کے سامنے ذلیل کرتے ہو جو مجھ پر خاص کَرَم فرماتا ہے! میں نے عرض کی: اے میرے سردار! کیا موت کے بعد زِندَگی ہے؟ فرمایا: میں زندہ ہوں اور خُدا کا ہر پیارا زندہ ہے، بیشک وہ وَجاہت و عزَّت جو مجھے روزِ قِیامت ملے گی اُس سے میں تیری مدد کروں گا۔ (فتاوٰی رضویہ،9/433)) zکوئی بھی نیک کام کرکے ولیوں کو اُس کا ثواب پہنچانا، اِسی طرح اُن کوثواب پہنچانے کے لئے کھانا کھلانا، جانور ذَبْح کر کے دیگیں بنوانا بہت نیکی اور بَرَکت والا کام ہے، اِسے ’’نذر و نیاز‘‘ بھی کہا جاتا ہے کہ جانور کی قربانی اللہ پاک کا نام لے کر ہوتی ہے اور اُس کھانے کا ثواب بزرگوں کو پہنچادیا جاتا ہے، خاص طور پر ولیوں کے سردار، حضور غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ کی گیارہویں شریف کی نیاز اور فاتحہ کرنا تو بہت ہی عظمت اور بھلائی والی چیز ہے۔ یاد رہے کہ ثواب پہنچانے سے ہماری نیکیاں ختم نہیں ہوتیں بلکہ اور بڑھ جاتی ہیں zاولیائے کِرام کا عُرس یعنی برسی وغیرہ منانا اور اُن کو ثواب پہنچانے کا اِہتِمام کرنا جیسے: فاتحہ دلانا، قرآن پڑھنا اور نعت خوانی کرنا وغیرہ بہت ثواب والے اعمال ہیں۔ (مگر اِس موقع پر کوئی بھی کام شریعت کے خلاف نہیں ہونا چاہئے، جو خلافِ شرع کام کرتے ہیں اُن کے پاس جانے کی اِجازت نہیں، البتہ مزار پر ضرورجائیے اور بَرَکتیں پائیے)۔ (ماخوذ از بہار شریعت، 1/264 تا277)