پانچواں دن

عنوان

سبقاً سبقاً مدنی قاعدہ

رکوع اور سجدے کی تسبیح کی مشق

دُعائے ماثورہ(ربنا اٰتنا فی الدنیا حسنۃ)

واجباتِ نماز، مکروہِ تحریمی اور نمازِ وتر کا طریقہ

لباس اور جوتا پہننے کی سنتیں و آداب

جوا

کینہ

عاجزی

جن اور فرشتے اللہ پاک کی مخلوق ہیں

مرنے کے بعد کیا ہوگا؟

مدنی قاعدہ / اذکار نماز

**********

’’نَماز کے واجبات‘‘

01 حدیثِ مُبارَکہ:

ایک مرتبہ پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم مسجد میں تشریف فرماتھے، ایک صحابی آئے، نَماز پڑھی اور بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر سلام عرض کیا۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے سلام کا جواب دے کر فرمایا: جاکر دوبارہ نَماز پڑھو، تمہاری نَماز نہیں ہوئی۔ وہ گئے اور نَماز پڑھ کر دوبارہ آئے۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے پھر یہی فرمایا کہ جاکر دوبارہ نَماز پڑھو، تماری نَماز نہیں ہوئی۔ وہ پھر گئے اور نَماز پڑھ کر آئے۔ ایسا 3 مرتبہ ہوا۔ وہ صحابی عرض کرنے لگے: اُس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق عطا فرماکر بھیجا ہے! مجھے اس سے اچّھی نَماز ادا کرنا نہیں آتی، آپ مجھے سکھا دیجئے! یہ سن کر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا: جب نَماز کےلئے کھڑے ہونا چاہو تو اچّھی طرح وُضو کرکے کعبہ شریف کی طرف منہ کرو اور ’’اَللہ ُاَکْبَر‘‘ کہو، پھر جو قرآن آتا ہو اُس کی تلاوت کرو، اُس کے بعداطمینان کے ساتھ رُکوع کرو، پھر بالکل سیدھے کھڑے ہوجاؤ ، اس کے بعد اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو، پھر اطمینان کے ساتھ بیٹھ جاؤ اور اِسی طرح ساری نَماز میں کرو۔

(مسلم، کتاب الصلاۃ، باب وجوب قراءۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ، ص 168، حدیث: 885۔886ملخصاً)

’’نَماز کے22واجبات‘‘

اِن چیزوں کو نَماز میں کرنا ضروری ہے۔ اگر اِن میں سے کوئی چیز جان بوجھ کر چھوڑی تو نَماز دوبارہ پڑھی جائے گی نیز ایسا شخص گناہ گار بھی ہوگا اور اگر کوئی چیز غلطی سے چھوٹ گئی تو ’’سجدۂ سَہْو‘‘ ( [1] ) کرنا ہوگا ۔ ہاں اگر امام کے پیچھے بھولے سے کوئی واجب چھوٹا تو اب مقتدی پر سجدۂ سہو لازِم نہیں۔

نوٹ: ہر واجب چھوڑنے کا یہ حکم نہیں ہے کہ نَماز دوبارہ پڑھنی ہو یا سجدۂ سہو لازِم ہو۔

نمبر شمار

واجب

نمبر شمار

واجب

01

تکبیر تحریمہ میں لفظ ’’اَللہُ اَکْبَر‘‘ کہنا

02

ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ پڑھنا

03

سورۃ الفاتحہ کے بعد1 چھوٹی سورت/

1 بڑی آیت/3 چھوٹی آیتیں کہ جو ایک بڑی آیت کے برابر ہوپڑھنا ( [2] )

04

سورۂ فاتحہ کو سورت سے پہلے پڑھنا

05

سورۂ فاتحہ اور سورت کے درمیان

’’اٰمین‘‘ اور ’’بِسْمِ اللہ‘‘ کے علاوہ کچھ نہ پڑھنا ( [3] )

06

قراءت کے فورا بعد رکوع کرنا

07

رکوع کے بعد بالکل سیدھا کھڑا ہونا

08

ہر رکعت میں 1 ہی مرتبہ رکوع کرنا

09

ترتیب کے مطابق ایک سجدے کے بعد بیٹھناپھر دوسرا سجدہ کرنا

10

دو سجدوں کے درمیان بالکل سیدھا بیٹھنا

11

ہر رکعت میں 2 بار سجدہ کرنا

12

رکوع، قومہ، سجدہ اور جلسہ میں کم از کم

1 بار ’’سُبْحٰنَ اللہ‘‘ کہنے کے برابر ٹھہرنا

13

دوسری رکعت سے پہلے قعدہ نہ کرنا

14

قعدۂ اولیٰ کرنا ( [4] )

15

قعدۂ اولیٰ اور قعدۂ اخیرہ میں

’’اَلتَّحِیَّات‘‘ مکمّل پڑھنا

16

فرض، وِتْر اور سنت مؤکدہ کے قعدۂ اولیٰ

میں ’’اَلتَّحِیَّات‘‘ کےبعد کچھ نہ پڑھنا

17

4 رکعت والی نَماز میں تیسری رکعت

کے بعد قعدہ نہ کرنا

18

ہر فرض اور واجب کو اُسی کی جگہ ادا کرنا

20

2 فرض/2 واجب/فرض و واجب

کے درمیان 3 بار ’’سُبْحٰنَ اللہ‘‘کہنے

کے برابر وقفہ نہ ہونا

19

دونوں طرف سلام پھیرنے میں

لفظ ’’اَلسَّلَام‘‘ کہنا

21

امام جب قراءت کررہا ہو چاہے بلند آواز

سے ہو یا آہستہ،تو مقتدی کا چپ رہنا

(اسلامی بہن اکیلے ہی نماز پڑھے گی)

22

سَجدۂ سہو واجب ہو تو سجدۂ سہو کرنا ( [5] )

aa

aaaaaaaaa

(ماخوذ از نَماز کے احکام، ص 217۔221)

نوٹ: غلطی سے جتنے واجب بھی چھوٹ جائیں ایک ہی مرتبہ ’’سجدۂ سَہْو‘‘ کرنا کافی ہے۔

سجدۂ سہو کا طریقہ:

قعدۂ اخیرہ میں جب نَماز کی آخری رکعت مکمل کر کے بیٹھیں تو ’’ اَلتَّحِیَّات‘‘ پڑھ کر سیدھی طرف سلام پھیرئیے اور 2 بار سجدہ کیجئے، جس طرح دو سجدوں کے درمیان بیٹھتے ہیں اسی طرح یہاں بھی بیٹھنا ہوگا۔اس کے بعد دوبارہ قعدہ کیجئے یعنی بیٹھئے اور ’’ اَلتَّحِیَّات‘‘ ’’درود شریف‘‘ اور ’’دعا‘‘ پڑھ کر سلام پھیردیجئے۔

(ماخوذ از نَماز کے احکام، ص 276۔280)

’’نَماز کے مکروہات‘‘

02 احادیثِ مُبارَکہ:

(1)مدینے والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا:اُن لوگوں کا کیا حال ہے جو نَماز میں آسمان کی طرف نظر اٹھاتے ہیں؟ انہیں چاہئے کہ ایسا نہ کریں، ورنہ ان کی آنکھیں چھین لی جائیں گی۔

(بخاری، کتاب الاذان، باب رفع البصر الی السماء فی الصلاۃ، 1/265، حدیث: 750)

(2)ایک مرتبہ ارشاد فرمایا: نَماز کی حالت میں اپنی انگلیاں نہ چٹخاؤ!

(ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ، باب مایکرہ فی الصلاۃ، 1/514، حدیث: 965)

’’نَماز کے 22مکروہاتِ تحریمہ ‘‘

نَماز کے مکروہ تحریمی میں سے کوئی چیز اگر نَماز کے دوران ہوجائے تو نَماز دوبارہ پڑھنی ہوگی۔ جان بوجھ کر جس نے نَماز مکروہ تحریمی کی وہ گناہ گار بھی ہوگا۔ اس صورت میں توبہ کرنا بھی لازم ہے۔

نوٹ: ہر مکرہ تحریمی کا یہ حکم نہیں ہے کہ نَماز دوبارہ پڑھنا لازِم ہو۔

نمبر شمار

مکروہِ تحریمی

نمبر شمار

مکروہِ تحریمی

01

داڑھی/بدن/لباس کے ساتھ کھیلنا

02

کپڑا سمیٹنا ( [6] )

03

کپڑالٹکانا ( [7] )

04

مرد کی کسی بھی آستین کا آدھی کلائی سے اوپر ہونا ( [8] )

05

شدّت سے پیشاب/پاخانہ/ریح آنا

06

کنکریاں(چھوٹے پتّھر) ہٹانا ( [9] )

07

کسی واجب کوجان بوجھ کر چھوڑ دینا ( [10] )

08

ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی

انگلیوں میں ڈالنا

09

کمر پر ہاتھ رکھنا

10

آسمان کی طرف نگاہ اٹھانا

11

ادھر ادھر منہ پھیر کر دیکھنا چاہے

تھوڑا منہ پھرے یا زیادہ

12

مرد کا سجدے میں کلائیاں بچھانا

13

کسی شخص کے منہ کے سامنے نَماز پڑھنا

14

نَماز میں ناک اور منہ چھپانا ( [11] )

15

بلا ضرورت بلغم وغیرہ نکالنا

16

جان بوجھ کر جماہی لینا

17

قراءت رکوع میں پہنچ کر ختم کرنا

18

قیام کے علاوہ کسی اور مقام پر قرآن پڑھنا

19

انگلیاں چٹخانا

20

امام سے پہلے رکوع / سجدے میں چلے

جانا یا امام سے پہلے سر اٹھا دینا ( [12] )

21

جاندار کی تصویر والے لباس میں نَماز پڑھنا

22

اُلٹا قرآن پڑھنا ( [13] )

aa

aaaaaaaaa

(ماخوذ از نَماز کے احکام ، ص247۔259)

نمازِ وِتْر کا طریقہ (7 مَدَنی پھول)

02 احایث مبارکہ:

(1)رَحمت والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا:بلا شبہ اللہ پاک نے ایک نَماز سے تمہاری مدد فرمائی ہے جو تمہارے لئے سُرخ اونٹوں سے بہتر ہے، اوروہ نمازِ وِتْر ہے جسے اللہ پاک نے عشا اور سورج نکلنے کے درمیان رکھا ہے۔ (ابو داؤد، کتاب الوتر، باب استحباب الوتر، 2/88، حدیث: 1418)

(2)ایک حدیث میں ارشاد فرمایا: وِتْر حق ہے، تو جو وِتْر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں۔ وِتْر حق ہے، تو جو وِتْر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں۔ وِتْر حق ہے، تو جو وِتْر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں۔

(ابو داؤد، کتاب الوتر، باب فیمن لم یوتر، 2/89، حدیث: 1419)

نمبر شمار

مدنی پھول

01

3 رکعت نمازِ وِتْر کی نیّت کرکے نَماز شروع کرنا

02

عام نَماز کی طرح دوسری رکعت تک نَماز پڑھ کر قعدۂ اولیٰ کرنا

03

قعدۂ اولیٰ میں’’اَلتَّحِیَّات‘‘ پڑھ کر تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہونا

04

سورۂ فاتحہ اور سورت کی تِلاوت کے بعد ہاتھ اٹھا کر’’اَللہُ اَکْبَر‘‘ کہہ کردوبارہ ہاتھ باندھنا

05

دُعائے قُنوت پڑھنا

(دُعائے قُنوت یاد نہ ہو تو یہ دُعا بھی پڑھی جاسکتی ہے: ’’اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ‘‘)

06

’’اَللہُ اَکْبَر‘‘ کہہ کر رکوع کرنا پھر پہلے کی طرح تیسری رکعت مکمّل کرکے قعدۂ اخیرہ کرنا

07

’’ اَلتَّحِیَّات‘‘ ’’دُرود شریف‘‘ اور ’’دُعا‘‘ پڑھ کر سلام پھیر دینا

(ماخوذ از نَماز کے احکام، ص 273۔275)

**********

’’اِسلام‘‘ کی خوبیاں

پیارے اِسلامی بھائیو! لباس کی اہمیت سے ہم سبھی واقف ہیں۔ یہ نہ صرف ہمارے بدَن کو چھپاتا بلکہ اس کی حفاظت بھی کرتا ہے۔ اچّھے اور عمدہ لباس سے انسان کی شخصیت کا بھی پتہ چلتا ہے اور اس کی عزّت میں بھی اِضافہ ہوتا ہے۔ دنیا کے تقریبا تمام ہی مذاہِب اور قوموں میں لباس کی خاص حیثیت ہے۔بلکہ کئی لباس تو ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے انسان کے مذہب، قوم اورکام کاج کا علم ہوجاتا ہے۔بنیادی طور پر لباس ایک اِنسانی ضرورت ہے لیکن جیسے جیسے دنیا آگے بڑھتی چلی جا رہی ہے لباس کے رنگ اور ڈھنگ بھی بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ بلکہ نوبت یہ ہے کہ دن اور رات کے اوقات بھی اِنسان کے لباس پر اَثَر انداز ہوتے نظر آتے ہیں۔

دینِ اِسلام کی خوبی ہے کہ یہ اِنسان کی فطرت کے بہت قریب ہے۔ اِسلام نہ صرف مرد و عورت کو لباس اِختیار کرنے اور مناسب انداز سے اپنے جسم کو چھپانےکا حکم دیتا ہے بلکہ صاف اور عمدہ لباس کو پسند بھی فرماتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اِسلام ہماری دنیا و ا ٓخرت کی بہتری کے لئے اپنےلباس اور کِردار دونوں میں تقوٰی اختیار کرنے کا بھی درس دیتا ہے۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے:

(ترجمہTranslation:) اے آدَم کی اولاد! بیشک ہم نے تمہاری طرف ایک لباس وہ اُتارا جو تمہاری شَرَم کی چیزیں چھپاتا ہے اور (ایک لباس وہ جو) زیب و زینت ہے اور پرہیزگاری کا لباس سب سے بہتر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ (ترجمۂ کنز العرفان) (پ8، الاعراف:26)

عُلَما نے فرمایا: لباس کی دین اور دنیا دونوں کے اعتبار سے حاجت (یعنی ضرورت)ہے۔ دین کے اعتبار سے تو یوں کہ لباس سے ستر ڈھانپنے(یعنی جسم کے وہ حصّے جنہیں چھپانے کا حکم ہے انہیں چھپانے) کا کام لیا جاتا ہے کیونکہ ’’ستر عورت‘‘(یعنی جسم کے وہ حصے جن کا پردہ ضروری ہے انہیں چھپانا) نَماز میں شرط ہے۔ اور دنیا کے اعتبار سے یوں کہ لباس گرمی اور سردی روکنے کے کام آتا ہے۔ یہ اللہ پاک کا بہت بڑا احسان ہے۔ اللہ پاک نے تین3 طرح کے لباس اتارے، دو 2جسمانی اور ایک1 رُوحانی۔ جسمانی لباس بعض تو ستر عورت کے لئے اور بعض زینت (یعنی خوبصورتی) کے لئے ہیں، یہ دونوں اچّھے ہیں (جبکہ شریعت کے مطابق ہوں) اور رُوحانی لباس ایمان، تقوٰی، حَیا اور نیک خصلتیں (یعنی اچھی عادتیں) ہیں۔ یہ تمام لباس آسمان سے اُترے ہیں کیونکہ بارِش سے رُوئی، اُون اور ریشم پیدا ہوتی ہے، یہ بارِش آسمان سے آتی ہے اور وحی (یعنی اللہ پاک اپنے نبیوں کو جو خاص پیغام عطا فرماتا ہے اُس) سے تقوٰی نصیب ہوتا ہے اور وحی بھی آسمان سے آتی ہے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ لباس صرف انسانوں کے لئے بنایا گیا، اِسی لئے جانور بے لباس ہی ہوتے ہیں۔ ستر عورت چھپانے کے قابل لباس پہننا فرض ہے اور لباسِ زینت (یعنی جائز اور اچھا لباس)پہننا مستحب ہے۔ لباس اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے اس لئے اس کے پہننے پر اللہ پاک کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ (صراط الجنان، 3/289)

پیارے اسلامی بھائیو! جس طرح لباس ایک نعمت ہے اِسی طرح جوتا / چپّل بھی اللہ پاک کی نعمت ہے۔جوتے پہننے سے جہاں کنکر، اور کانٹے وغیرہ چبھنے سے حفاظت ہوتی ہے وہاں سردی اور گرمی میں بھی پاؤں محفوظ رہتے ہیں۔ آئیے! لباس اور جوتا پہننے کی چند سنتیں اور آداب سیکھتے ہیں:۔

لباس اور جوتا پہننے کی سنتیں و آداب

e سفید رنگ کا لباس ہر لباس سے بہتر ہے۔ پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے سفید لباس کو پسند فرمایا ہے e جب کپڑا پہنیں تو یہ دُعا پڑھیں، اگلے پچھلے گناہ معاف ہوجائیں گے: ’’اَلْحَمْدُ للہِ الَّذِیْ کَسَانِیْ ہٰذَا وَرَزَقَنِیْہِ مِنْ غَیْرِ حَوْلٍ مِّنِّیْ وَلَا قُوَّۃٍ‘‘ یعنی تمام تعریفیں اللہ پاک کے لئے جس نے مجھے یہ پہنایا اور بغیر میری طاقت و قوّت کے مجھے یہ عطا کیا e کپڑا پہنتے وقت سیدھی جانب سے پہننا شروع کیجئے۔ مثلاً: جو کُرتا پہنیں تو پہلے سیدھی آستین میں ہاتھ ڈالئے پھر اُلٹی میں۔ اِسی طرح پاجامہ پہننے میں پہلے سیدھا پاؤں داخل کیجئے eمرداپنا پاچامہ ایسا بنائے جو ٹخنے سے اوپر ہو e کپڑا اُتارتے وقت اُلٹی جانب سے شُروع کیجئے۔ مثلاً: پہلے اُلٹا ہاتھ نکالئے پھر سیدھا e پہلے کُرتا پہنئے پھر پاجامہ e عمامہ باندھنے کی عادت ڈالئے کہ عمامہ باندھنا پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی بہت پیاری سنّت ہے e نعلین (یعنی جوتا) پہننا نبیِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی سنّت ہے (پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی تعظیم (Respect) کی وجہ سے عاشقانِ رسول آپ کے چپّل کو ’’نعلین شریف‘‘ کہتے ہیں) e پہلے سیدھا جوتا پہنیں پھر اُلٹا e اُتارنے میں پہلا اُلٹا جوتا اُتاریں اور پھر سیدھا e جب بیٹھیں تو جوتے اُتار لینا سنّت ہے e جوتا پہننے سے پہلے جھاڑلیں تاکہ کیڑا / کنکر وغیرہ ہو تو نکل جائے e استعمال والا جوتا اُلٹا پڑا ہو تو سیدھا کردیجئےورنہ محتاجی اور تنگدستی کا اندیشہ ہے۔ (ماخوذ ازسنتیں اور آداب، ص 102۔ 105)

اسلامی بہنوں کیلئے

اتنا لباس پہننا ضروری ہے کہ جس سے جسم کے وہ حصّے چھپ جائیں کہ جسے چھپانے کا حکم ہے۔عورتیں بہت باریک(thin) اور اتنا چست لباس(skin-tight clothes) ہرگز نہ پہنیں کہ جس سے بدن کےحصّے ظاہر ہوں کہ عورتوں کو ایسا کپڑا پہننا حرام ہے مرد بھی پاجامہ اور تہبند ایسے باریک اور ہلکے کپڑے کا نہ پہنیں کہ جس سے بدن کی رنگت جھلکے(is exposed the colour of skin) اور ایسا تہبند اور پاجامہ پہننا کہ جس سے چھپانے والے اعضاء بھی نہ چھپیں یہ تو مردوں کو بھی جائز نہیں۔(جنتی زیور،ص403 ملخصاً)

مسئلہ:۔عورتوں کو چوڑی دار تنگ پاجامہ(skin-tight) نہیں پہننا چاہئے کہ اس سے ان کی پنڈلیوں(calves) اور رانوں(thighs) کی شکل ظاہر ہوتی ہے عورتوں کے لئے یہی بہتر ہے کہ ان کے پاجامے ڈھیلے ڈھالے اور نیچے ہوں کہ قدم چھپ جائیں ان کے لئے جہاں تک پاؤں کا زیادہ سے زیادہ حصہ چھپ جائے یہ بہت ہی اچھا ہے۔(بہارشریعت،حصّہ۱۶، ۵/ ۴۱۷، ملخصاً)

مسئلہ:۔مردوں کو عورتوں کا لباس پہننا اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننا بھی منع ہے۔(جنتی زیور،ص404)

**********

’جوا ( Gambling ) ‘‘

جوئے کی تعریف:

ہر وہ کھیل جس میں یہ شرط ہو کہ ہارنے والے کی کوئی چیز جیتنے والے کو دی جائے گی وہ ’’جوا‘‘ ہے۔

(التعریفات للجرجانی، ص 126)

اللہ پاک کا ارشاد:

(ترجمہTranslation:) آپ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ (اے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ!) تم فرمادو: ان دونوں میں کبیرہ (یعنی بڑا) گناہ ہے اور لوگوں کے لئے کچھ دنیوی منافع (یعنی دنیاوی فائدے)بھی ہیں اور ان کا گناہ ان کے نفع سے زیاددہ بڑا ہے۔ (ترجمۂ کنز العرفان) (پ2، البقرۃ:219)

عُلَما فرماتے ہیں: جوئے میں یہ فائدہ ہے کہ اس سے کبھی مفت کا مال ہاتھ آجاتا ہے لیکن جوئے کی وجہ سے ہونے والے گناہوں اور فسادات (یعنی خرابیوں) کا کیا شمار! مزید لکھا ہے: شطرنج(Chess)، تاش(Cards)، لُڈو، کیرم، بلیئرڈ(Bleared)، کرکٹ (Cricket) وغیرہ ہار جیت کے کھیل جن پر بازی لگائی جائے سب جوئے میں داخل اور حرام ہیں۔ یونہی کرکٹ وغیرہ میں میچ (Match)یا ایک ایک اوور (Over)یا ایک ایک بال (Ball) پر جو رقم لگائی جاتی ہے یہ جوا ہے، یونہی گھروں یا دفتروں میں چھوٹی موٹی باتوں پر جو اس طرح کی شرطیں لگتی ہیں کہ اگر میری بات درست نکلی تو تم کھانا کھلاؤ گے اور اگر تمہاری بات سچ نکلی تو میں کھانا کھلاؤں گا یہ سب جوئے میں داخل ہیں۔ یونہی لاٹری وغیرہ جوئے میں داخل ہے۔ آج کل موبائل پر کمپنی کو میسج (Message) کرنے پر ایک مخصوص رقم کٹتی ہے اور اس پر بھی انعامات رکھے جاتے ہیں یہ سب جوئے میں داخل ہیں۔ (صراط الجنان، 1/336۔337ملتقطاً)

جوئے کے متعلق3احادیث:

(1)مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا فرمان ہے: جس نے نَرْد شیر (فاِرس کے بادشاہ ’’آرد شیر ابن تابک‘‘ کا ایجاد کردہ جوئے کا ایک کھیل) کھیلا تو گویا اس نے اپنا ہاتھ خنزیر کے گوشت اور خون میں ڈبودیا۔

(مسلم، کتاب الشعر، باب تحریم اللعب بالنردشیر، ص955، حدیث: 5896)

(2)اوردوسری حدیث میں فرمایا: جو شخص نَرْد کھیلتا ہے پھر نَماز پڑھنے اٹھتا ہے، اُس کی مثال اُس شخص کی طرح ہے جو پیپ اور سؤر کے خون سے وضو کرکے نَماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے۔

(مسند احمد، احادیث رجال من اصحاب النبیﷺ، 9/50، حدیث: 23199)

(3)اسی طرح ایک حدیث میں کچھ یوں ارشاد فرمایا: جس شخص نے اپنے ساتھی سے کہا: آؤ! جوا کھیلیں۔ اس کہنے والے کو چاہئے کہ صدقہ کرے۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب من حلف باللات…الخ، ص 692، حدیث:4260)

یعنی جوا کھیلنا تو درکنار اگر کسی کو جوا کھیلنے کی دعوت بھی دے تو وہ جوئے کا مال جس سے جوا کھیلنا چاہتا ہے وہ یا دوسرا مال صدقہ کردے تاکہ اس ارادے کا یہ کفارہ ہوجائے۔ (مراٰۃ المناجیح، 5/195) یاد رہے کہ بُرائی اور گناہ کی طرف بُلانا بھی بُرائی اور گناہ ہے۔

جوئے کی مثالیں:

۞مختلف کھیل مثلا کرکٹ، کَیرم، بِلیرڈ، تاش، شطرنج وغیرہ دو۲ طرفہ(Both the Sides) شرط لگا کر کھیلے جاتے ہیں کہ ہارنے والا جیتنے والے کواتنی رقم یا فُلاں چیز دے گا یہ بھی جُوا ہے ۞گھروں یا دفتروں میں چھوٹی موٹی باتوں پر جو اس طرح کی شرطیں لگتی ہیں کہ اگر میری بات دُرُسْت نکلی تَو تم کھانا کِھلاؤ گے اور اگر تمہاری بات سچ نکلی تو میں کھانا کِھلاؤں گا ۞آج کَل موبائل پر کمپنی کو میسج (Message) کرنے پر ایک مَخْصُوص رَقَم کٹتی ہے اور اس پر بھی اِنْعَامات رکھے جاتے ہیں یہ سب جُوئے میں داخِل ہیں۔

جوئے کےحوالے سے چند مسائل:

(1): جُوا کھیلنا حرام ہے۔ (2):اسی طرح جُوا کا اڈہ چلانا، جُوئے کے آلات (Tools of Gambling)بیچنا خریدنا سب حرام اور جہنّم میں لے جانے والے کام ہیں۔(غیبت کی تباہ کاریاں،ص185،ملخصاً) (3):جُوا کھیلنے والا اگر نادِم ہوا تو اُس کو چاہئے کہ بارگاہِ الٰہی میں سچی توبہ کرے مگر جو کچھ مال جِیتا ہے وہ بدستور حرام ہی رہے گا(واپس دینے ہونگے) (غیبت کی تباہ کاریاں،ص190)

جوئے کے نقصانات

پیارے اسلامی بھائیو! cجوا کھیلناحرام اور جہنّم میں لےجانے والا کام ہے cجوئے کی وجہ سے لوگوں سے دشمنیاں پیدا ہوجاتی ہیں cجوئے کی وجہ سے آدمی سب کی نظروں میں ذلیل و خوار ہوجاتا ہے cجوا کھیلنے والا جوئےباز اور سٹے باز کے نام سے بدنام ہوتا ہے cجوا کھیلنے والا شخص کبھی اپنا سارا مال جوئے میں ہار جاتا ہے cجوا کھیلنے والے کی زندگی برباد ہوجاتی ہےcجوا کھیلنے والا محنت سے جی چُرانے لگتا ہےcجوا کھیلنے والے کو مفت خورہ بننے کی عادت پڑجاتی ہے cجوا کھیلنے والا کبھی سود پر قرض لیتا ہے اور لمبا ہاتھ مارنے کے چکّر میں مزید دلدل میں دھنس جاتا ہے cجوا کھیلنے والا کبھی کسی کا خیرخواہ نہیں ہوتا، کیونکہ اُس کی کامیابی ہی دوسرے کی ہار میں ہوتی ہے cجوا کھیلنے والا جوا کھیلنے کے پیسے حاصل کرنے کے لئے ہر بُرے سے بُرا کام کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے c جوا کھیلنے والے کی نوکر ی یا کاروبار بھی ختم ہوجاتا ہے c جوا کھیلنے والی کی گھریلو زندگی بھی تباہ ہوجاتی ہے cجوا کھیلنے والا بسا اوقات مایوس ہوکر خودکشی کرلیتا اور حرام موت کا شکار ہوجاتا ہے۔

جوئے کی عادت ہو تو کیسے ختم کی جائے؟

x اِس حرام کام پر شرمندہ ہوتے ہوئے اللہ پاک کی بارگاہ میں سچّی توبہ کیجئے اور توبہ پر قائم رہنے کی دُعا کیجئے x جوا کھیلنے کے دین و دنیا کےنقصانات پیش نظر رکھئے اور عقلمندی کا ثبوت دیتے ہوئے جوئے سے بالکل دور رہئے x جوا کھیلنے والے دوستوں کی صحبت چھوڑ کر نیکی کی دعوت عام کرنے والے عاشقانِ رسول کے ساتھ رہئے x جوا کھیلنے کا دل کرے تو صدقہ و خیرات کیجئے x جائز اور ثواب والے کاموں میں پیسہ خرچ کیجئے اور آخرت کے لئے ثواب کا انبار جمع کیجئے x فارِغ رہنے کے بجائے خود کو جائز اور نیکی کے کاموں میں مصروف رکھئے۔

نوٹ: جوئے سے بچنے کا ذہن بنانے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ’’غیبت کی تباہ کاریاں‘‘ صفحہ 184 تا 191 کا مطالعہ کیجئے۔

**********

’’کینہ‘‘

کینہ کی تعریف:

کینہ یہ ہے کہ انسان اپنے دل میں کسی کو بوجھ جانے، اس سے غیر شرعی دشمنی اور غصہ رکھے، نفرت کرے او یہ کیفیت ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے۔ (احیاء العلوم، کتاب ذم الغضب والحقد والحسد، القول فی معنی الحقد…الخ، 3/223)

اللہ پاک کا ارشاد:

(ترجمہTranslation:) اور ہم نے ان کے سینوں سے بغض و کینہ کھینچ لیا، ان کے نیچے نہریں بہیں گی اور وہ کہیں گے: تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے ہمیں اس کی ہدایت دی اور ہم ہدایت نہ پاتے اگر اللہ ہمیں ہدایت نہ دیتا۔ (ترجمۂ کنز العرفان ) (پ8، الاعراف:43)

عُلَما فرماتے ہیں: جنّتیوں کے دلوں سے اللہ پاک نے کینے کو نکال دیا اور یہ سب پاکیزہ دل والے ہوں گے۔ نہ تو دنیوی باتوں کا کینہ ان کے دلوں میں ہوگا اور نہ ہی جنّت میں ایک دوسرے کے بلند مقامات و محلّات پر حسد کریں بلکہ سب پیار و محبّت سے رہ رہے ہوں گے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ پاکیزہ دل ہونا جنّتیوں کے وصف ہیں اور اللہ پاک کے فضل سے امید ہے کہ جو یہاں اپنے دل کو بغض و کینہ اور حسد سے پاک رکھے گا اللہ پاک قیامت کے دن اُسے پاکیزہ دل والوں یعنی جنّتیوں میں داخل فرمائے گا۔ جنّت میں جانے سے پہلےسب کے دلوں کو کینہ سے پاک کردیا جائے گا۔ (صراط الجنان، 3/319ملخصاً)

کینہ کے بارے میں 2 احادیث:

(1)آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا عبرت والا فرمان ہے: بغض و کینہ رکھنے والوں سے بچو! کیونکہ بغض و کینہ دین کو تباہ کردیتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، جزء3، 2/28، حدیث:5486)

(2)ایک مرتبہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بے شک چغلی اور کینہ جہنم میں ہیں۔ یہ کسی مسلمان کے دل میں جمع نہیں ہوسکتے۔ (مسند احمد، مسند الشامیین، 6/291، حدیث: 18020)

کینہ کی چند مثالیں:

e کسی کا دل میں خیال آتے ہی دل میں بوجھ محسوس کرنا اور نفرت کی لہر دوڑ جانا eوہ اگر نظر آجائے تو نفرت کے سبب بغیر کسی شرعی وجہ کے ملنے سے بچنا eزبان، ہاتھ یا کسی بھی طرح اُسے نقصان پہنچانے کا موقع ملے تو پیچھے نہ ہٹنا eملاقات ہونے پر روکھےپن اور بد اَخلاقی سے مِلنا eاُس کی خوشیاں دیکھ کر شدید جَلَن محسوس کرنا eجہاں موقع ملے اُس کی عزّت خراب کرنا وغیرہ۔

نوٹ: یہ سب مثالیں اُسی صورت میں کینہ ہونگی کہ جب اِس نفرت کی کوئی شرعی وجہ نہ ہو، اگر شرعی وجہ ہوتو یہ کینہ گناہ نہیں، مثلاً :کسی کے دینی نظریات غلط ہیں اور وہ بد مذہب ہے تو اس سے کینہ رکھنا واجب ہے۔

کینہ رکھنے کا حکم:

مسلمان سے بلاوجہ شرعی کینہ وبُغض رکھنا حرام (اور گناہ) ہے۔ (فتاویٰ رضویہ،۶/۵۲۶)

کینہ کے اسباب

(۱)غصّہ کینہ پیدا کرتا ہے(۲)نیز بدگمانی اور(۳)ہنسی مذاق کی وجہ سے بھی کینہ پیدا ہوتا ہے، امیرالمومنین حضرت سیِّدُناعمر بن عبد العزیز رَحْمَةُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:اللہ پاک سے ڈرو اورمذاق سے بچو کیونکہ اس سے کینہ پیدا ہوتا ہے۔(احیاءالعلوم،کتاب آفات اللسان،۳/۱۵۹) (۵)کینے کی آگ بھڑکنے کا سب سے بڑا سبب بات کاٹنا اور اعتراض کرنا ہے۔

(احیاءالعلوم،کتاب آداب الالفة والاخوة… الخ، الباب الثانی، ۲/۲۲۴، ملخصاً)

کینے کی ایک نشانی:

دل میں بزرگوں کے لئے بغض و کینہ رکھنے کی وجہ سے ان کے سامنے عاجزی کا اظہار نہیں کرتا۔ (احیاءالعلوم،کتاب ذم الکبروالعجب،۳/۴۳۳،ملخصاً)

کینہ سے بچنے کے چند علاج:

a اللہ پاک سے دُعا کیجئے کہ وہ بغض و کینہ سے دل کو پاک و صاف فرمادے a غصّہ پینے کے فضائل کا مطالعہ کیجئے اور اپنے غصّے پر قابو پانے کی کوشش کیجئے a کسی کے بارے میں بدگمانی کو دل میں جگہ مت دیجئے بلکہ جہاں تک ہوسکے ہر کسی سے اچّھا گمان رکھئے a شراب اور جوئے سے بالکل دور رہئے کہ اس سے آپس میں نفرتوں اور بغض و کینہ کا بازار گرم ہوتا ہے a کسی کے پاس زیادہ نعمتیں دیکھ کر صبر و شکر اور قناعت سے کام لیجئے اور اللہ پاک کی تقسیم پر راضی رہئے a اپنے پاس زیادہ نعمتیں ہوں تو سرکش ہونے کے بجائے دوسروں کے کام آئیے اور سخاوت کیجئے a سلام و مصافحہ کی عادت بنائیے a شریعت منع نہ کرے تو تحفہ پیش کیجئے کہ اس سے محبّت بڑھتی ہے a ہر مسلمان سے رِضائے اِلٰہی کے لئے محبّت کرنا شروع کردیجئے a خوامخواہ کسی کے بارے میں اُلٹا سیدھا سوچنے کے بجائے اپنے ذِہْن کو کسی اچھے کام میں استعمال کیجئے۔

نوٹ: کینہ کے بارے میں مزید جاننے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی یہ کتابیں ’’بغض و کینہ‘‘ اور ’’احیاء العلوم جلد 3 صفحہ 552 تا 570‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔

**********

’’عاجزی‘‘

عاجزی کی تعریف:

لوگوں کی طبیعتوں اور اُن کے مقام و مرتبے کے اعتبار سے اُن کےلئے نرمی اختیار کرنا اور اپنے آپ کو چھوٹا سمجھنا عاجزی کہلاتا ہے۔ (فیض القدیر، حرف الہمزۃ، 1/599، تحت الحدیث:925 ماخوذاً)

عاجزی کے بارے میں قرآن کی آیت:

(ترجمہTranslation:) بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور صبر کرنے والے اور صبر کرنے والیاں اور عاجزی کرنے والے اور عاجزی کرنے والیاں اور خیرات کرنے والے اور خیرات کرنے والیاں اور روزے رکھنے والے اور روزے رکھنے والیاں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کرنے والے اور حفاظت کرنے والیاں اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں ان سب کے لئے اللہ نے بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔ (ترجمۂ کنز العرفان ) (پ22، الاحزاب:35)

عُلَما فرماتے ہیں: جو عورَتیں اِسلام، اِیمان اور طاعت (یعنی حکم ماننے)میں، قول اور فعل (یعنی اپنے کاموں اور باتوں) کے سچّا ہونے میں، صبْر، عاجِزی و اِنکِساری اور صدقہ و خیرات کرنے میں، روزہ رکھنے اور اپنی عفّت و پارسائی (یعنی اپنی عزّت) کی حفاظت کرنے میں اور کثرت کے ساتھ اللہ پاک کا ذِکْر کرنے میں مَردوں کے ساتھ ہیں، تو ایسے مردوں اور عورتوں کے لئے اللہ پاک نے اُن کے اَعمال کی جزا کے طور پر بخشش اور بڑا ثواب تیّار کر رکھا ہے۔ (صراط الجنان، 1/245)

عاجزی کے بارے میں حدیث :

معراج پر جانے والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ پاک کے لئے عاجزی کرتا ہے اللہ پاک اُسے بلندی عطا فرماتا ہے۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، ص 1071، حدیث:6592)

عاجزی کی عادت بنانے کے لئے چند مدنی پھول:

k عاجزی کے فضائل اور بُزرگانِ دین کے فرامین کا مطالعہ کیجئے، عاجِزی اختیار کرنے کا ذِہْن بھی بنے گا اور اِس کا جذبہ بھی ملے گا k عاجِزی میں ایک رُوکاٹ تکبّر بھی بنتا ہے، اِس لئے تکبّر کا علاج کیجئے اور تکبّر کی علامات سے خود کو بچائیے k اپنی صلاحیتوں کے قصیدے پڑھنے اور اپنی تعریفوں کے پُل باندھنے سے پرہیز کیجئے، کہ ایسے شخص کے لئے عاجزی مشکل ہوجاتی ہے k اگر کوئی تعریف کرے تو اپنے نفس کا مُحاسَبہ شروع کردیجئے اور اپنی اِصلاح کی فکر میں لگ جائیے k ہر مسلمان کو خود سے اعلیٰ اور بہتر سمجھئے اور اِس کا احترام کیجئے k کوئی غلطی بتائے تو غلطی قبول بھی کیجئے اور شکریہ بھی ادا کیجئے k دوسروں کی اچّھائیاں دیکھ کر خود بھی اچّھا بننے کی کوشش کیجئے اور دوسروں سے سیکھنے کی عادت بنائیے۔ (نجات دلانے والے اعمال کی معلومات، ص 84۔89)

نوٹ: عاجزی کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ’’نجات دلانے والے اعمال کی معلومات صفحہ 81 تا 89 ‘‘ کامطالعہ مفید رہے گا۔

**********

اللہ پاک کے احسان

پیارے اسلامی بھائیو! ہمارے پیارے اللہ پاک کا ہم پر کتنا احسان ہے کہ اس نے نہ صرف ہمیں پیدا فرمایا ہے بلکہ زندہ رہنے کےلئے جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ سب عطا فرمائی ہیں۔

’’ہَوا‘‘ کو ہی لے لیجئے! اِس نعمت کی انسان بلکہ جانوروں کو بھی زندہ رہنے کےلئے شدید ضرورت ہے۔

r ہوانہ ہو تو زمین پر موجود سارے انسان، جانور، چَرِند، پَرِند اور حَشَراتُ الْارْض (یعنی کیڑے مکوڑے) مرجائیںrانسانوں اور جانوروں کے لئے ہوا اتنی ہی ضروری ہے جتنا مچھلیوں کے لئے پانی ضروری ہے، کیونکہ اگر ہوا نہ ہو تو انسانوں اور جانوروں کی جسمانی حرارت (Natural heat of the body) سےاُن کا دل بند ہوجائےگا اور وہ ہلاک ہوجائیں گے rہوا کی ہی وجہ سے بادل اِدھر سے اُدھر سفر کرتے ہیں اور جہاں جہاں کھیتی باڑی کےلئے پانی کی ضرورت ہوتی ہے اللہ پاک کے حکم سے وہاں وہاں پانی پہنچ جاتا ہے، ایسا نہ ہوتا تو پھل، سبزی، اناج اور دیگر ضرورت کی چیزیں پیدا ہی نہ ہوپاتیں rہوا کی ہی وجہ سے کشتیاں ایک جگہ سے دوسری جگہ تک پانی کی سطح پر تیرتی ہوئی ضرورت کا سامان لے کر جاتی ہیں، یوں پوری دنیا والوں کو اُن کی ضرورت کا سامان مِل جاتا ہے rہوا چلتی ہے تو زمین سے گندَگی اور بدبو ختم ہوتی ہے، اگر ہوا نہ چلے تو گندگی اور بدبو کی وجہ سےانسان بیماریوں کا شکار ہوکر مرجائے rہوا کے چلنے سے مٹّی اُڑتی ہے ، جس سے باغات میں موجود پھل دار درخت مضبوط ہوتے ہیں rاور یہ مٹّی پہاڑوں کو ڈھانپ لیتی ہے جس سے پہاڑ بھی زَراعت کے قابل ہوجاتے ہیں rہوا کی ہی وجہ سے سمندر میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور سمندر ’’عَنْبر (Ambergris)‘‘ اور دیگر قیمتی موتیوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کےلئے کئی فائدہ مند چیزیں باہر نکال دیتا ہے rہوا کے چلنے کی وجہ سے بارِش قطروں کی صورت میں بکھر کرنازل ہوتی ہے، اگر ہوا نہ ہوتی تو بارش ایک ساتھ جمع ہو کر زمین پر گرتی اور کافی مالی و جانی نقصان ہوتا rپھر قدرت دیکھئے کہ قطروں کی صورت میں برسنے والا یہی پانی جمع ہو کر نہروں کی شکل اختیار کرتا ہے اور اچّھے انداز میں لوگوں کی ضرورتیں پوری کرتا ہے rیہ بھی کتنی بڑی نعمت ہے کہ ہوا جیسی ضروری ترین چیز بالکل مفت اور اتنی عام ہے کہ دنیا کا کوئی شخص بلکہ کوئی بھی جاندار اِس سے محروم نہیں ہے rکبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حَبْس ہوجاتا ہے، یعنی بارِش نہیں برستی اور ہوا بھی رک جاتی ہے، اس میں بھی کئی حکمتیں ہوتی ہیں کہ اگر مسلسل بارش ہوتی رہے تب بھی زمین اور اُس پر موجود سب کچھ تباہ ہوجائے گا اور اگر حَبْس ہی رہے تو ہمارے بَدَن، کھیتیاں، چشمے، دریا وغیرہ سب سوکھ جائےگا اور سب جاندار ختم ہوجائیں گے۔ اِسی لئے ہماری بہتری کی خاطر ہوا چلتی ہے اور کبھی کبھی رک بھی جاتی ہے r کبھی ایسا ہوتا ہے کہ یہی ہوا اور اس کے نتیجے میں ہونے والی بارِش سے بہت نقصان اٹھانا پڑتا ہے، ایسا اِس لئے ہوتا ہے کہ انسان غفلت کی نیند سے جاگے اور ربّ کی نعمتوں کی قدر کرتے ہوئے اُس کی فرمانبرداری میں لگ جائے۔

(ماخوذ از مجموعۃ رسائل امام غزالی، الحکمۃ فی مخلوقات اللہ، ص16۔17)

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: (ترجمہTranslation:) اور اُس کی نشانیوں میں سے ہے کہ وہ خوشخبری دیتی ہوئی ہوائیں بھیجتا ہے اور تاکہ تمہیں اپنی رَحمت کا مزہ چکھائے اور تاکہ اُس کے حکم سے کشتی چلے اور تاکہ تم اُس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم شکر گزار ہوجاؤ۔ (ترجمۂ کنز العرفان ) (پ21، الروم:46)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب

صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

میرے نبی صلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی شان

اللہ پاک کے پیارے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَکے چچا ابو طالب کا کہنا ہے کہ ایک مرتبہ میں اپنے بھتیجے یعنی نبی کریمصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے ساتھ ’’ذُوْ الْمَجَاز‘‘ کے مقام پر تھا کہ اچانک مجھے پیاس لگی۔ میں نے محمد مصطفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سےکہا: اے میرے بھتیجے! مجھے پیاس لگی ہے۔ میں نےیہ بات اِس لئے نہیں کہی تھی کہ میرے بھتیجے کے پاس پانی تھا بلکہ صر ف اپنی پریشانی ظاہر کرنے کے لئے کہہ دی تھی۔ میری بات سُن کر وہ فوراً اپنی سواری سے نیچے اترے اور ارشاد فرمایا: اے چچا! کیا پیاس لگی ہے؟ میں نے عرض کی: جی ہاں۔ یہ سن کر حضرت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے اپنی مُبارک ایڑی زمین پر ماری جس کی بَرَکت سے اُس مقام سے ایک دم پانی نکل پڑا! پھر مجھ سے ارشاد فرمایا: اے چچا! پانی پی لو۔ تو میں نے وہ پانی پی لیا۔ (تاریخ دمشق، 66/308)

ہے خشک و تَر پہ قبضہ جس کا وہ شاہِ جہاں یہ ہے

یہی ہے بادشاہ بَر کا یہی سُلطاں سمندر کا

بجھے گی شربتِ دیدار ہی سے تشنگی اپنی

تمہاری دید کا پیاسا ہوں یوں پیا سا ہوں کوثر کا

زباں پر جَم گئے کانٹے ہے سارا حلق خشک اپنا

شہیدِ کربلا کا صدقہ دو اِک جام کوثر کا

کمی کچھ بھی خزانے میں تمہارے ہو نہیں سکتی

تمہیں حق نے عطا فرمادیا جب چشمہ کوثر کا

(سامان بخشش، ص50۔52)

نوٹ:پاؤں کے نیچے کے جوڑ کی ابھری ہوئی ہڈّی کو ٹخنا (Ankle)اور ٹخنے کے نیچے پیر کی گدّی کا حصہ ایڑی (Heel) کہلاتا ہے۔

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب

صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

’’فرشتوں کے بارے میں اِسلام کے چند بنیادی عقیدے‘‘

z ’’فرشتے ‘‘اللہ پاک کی مخلوق ہیں z اللہ پاک نے اِنہیں نُور سے پیدا کیا ہے z یہ جس شکل میں آنا چاہیں آسکتے ہیں z فرشتے معصوم (یعنی گناہوں سے محفوظ) ہوتے ہیں، یعنی یہ اللہ پاک کی کسی بھی طرح نافرمانی کر ہی نہیں سکتے z فرشتے وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے z فرشتے مختلف کام کرتے ہیں:۔ کوئی نبیوں کی بارگاہ میں اللہ پاک کا پیغام پہنچاتا ہے کوئی بارِش برساتا ہے کوئی ہَوا چلاتا ہےکوئی روزی پہنچاتا ہے کوئی ماں کے پیٹ میں بچّہ کی شکل بناتا ہےکوئی انسان کی دشمن سے حفاظت کرتا ہے کوئی مسلمانوں کے نیک اجتماعات میں شریک ہوتا ہے کوئی نامۂ اعمال لکھتا ہے بہت سے فرشتے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے دربار میں حاضر ہوتے ہیں کوئی فرشتہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں مسلمانوں کا صلوٰۃ و سلام پیش کرتا ہے کوئی مرنے والے سے سوالات کرتا ہے کوئی انسان کی رُوح نکال کر اُسے موت دیتا ہےکوئی عذاب دینے پر مقرّر ہے جبکہ کسی کے ذِمّہ قیامت کے دن صُور پھونکنے کی ذمّہ داری ہے z فرشتے نہ ہی مرد ہیں اور نہ ہی عورت z یہ عقیدہ رکھنا کہ ’’فرشتے ہمیشہ ہمیشہ سے ہیں یا سب کو پیدا کرنے والے ہیں‘‘کفر ہے z فرشتوں کی صحیح تعداد اللہ پاک جانتا ہے اور اللہ پاک کی عطا سے اس کے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جانتے ہیں z چار فرشتے بہت مشہور ہیں اور باقی سب فرشتوں سے افضل ہیں:۔ حضرتِ جِبریلحضرت میکائیل حضرت اِسرافیل حضرتِ عِزرائیل علیہم السلام z کسی فرشتے کی تھوڑی سی گستاخی کرنا بھی کُفْر ہے z اِسی طرح فرشتوں کے ’’ہونے کا اِنکار کرنا‘‘ یا یہ کہنا کہ ’’فرشتہ تو بس نیکی کی طاقت کوکہتے ہیں، اِس کے علاوہ فرشتہ کوئی چیز نہیں ہوتی‘‘یہ دونوں باتیں کُفر ہیں۔(ماخوذ از بہار شریعت، 1/90 تا95)

نوٹ: جو بالکل صاف صاف کفر کہے، اُس کا اِسلام ختم ہوجاتا ہے۔ یادرہے: کسی کے کافر ہونے کا فیصلہ ہم نہیں کرسکتے، یہ علمائے کِرام کا کام ہے۔ کسی نے فرشتوں کے خلاف کوئی بات بولی تو ’’دارالافتاء اہلسنّت‘‘ سے پوچھ لیجئے۔

’’ جِنّات کے بارے میں اِسلام کے چند بنیادی عقیدے‘‘

z ’’جنات‘‘اللہ پاک کی مخلوق ہیں z اللہ پاک نے انہیں آگ سے پیدا کیا ہے z بعض جنات کو یہ طاقت بھی دی گئی ہے کہ وہ کوئی بھی شکل اختیار کرسکتے ہیں z جنات کی عمر بہت لمبی ہوتی ہےz شرارت کرنے والے جنات کو شیطان کہا جاتا ہےz جنات ہم انسانوں کی طرح عقل، رُوح اور جسم والے ہوتے ہیںz اِن کی اولاد بھی ہوتی ہے اور نسل بھی چلتی ہےz جنات ہماری طرح ہی کھاتے، پیتے، جیتے اور مرتے ہیںz جنات میں بھی مسلمان اور غیر مسلم ہوتے ہیں z اکثر جنات غیر مسلم ہوتے ہیں z جو جنات مسلمان ہوتے ہیں ان میں اچّھے بھی ہوتے ہیں اور بُرے بھی ہوتے ہیں، لیکن بُروں کی تعداد زیادہ ہے z جنات کے’’ ہونے کا انکار کرنا‘‘ یا ’’بُرائی کی طاقت کا نام جنّ یا شیطان‘‘ رکھنا کُفر ہے۔ (ماخوذ از بہار شریعت،1/96 تا97)

’’مرنےکے بعد کیا ہوگا؟‘‘

z دنیا اور آخرت کے درمیان ایک اور دنیا ہے، جسے ’’بَرْزَخ‘‘ کہاجاتا ہے، مرنے کے بعد انسان اور جنّات قیامت تک بَرْزَخ میں رہتے ہیں z بَرْزَخ میں کوئی آرام میں ہوتا ہے اور کوئی تکلیف میں ہوتا ہے z ہر شخص کی جتنی زندگی مقرّر ہے اُس میں نہ زیادتی ہوسکتی ہے اور نہ ہی کمی ہوسکتی ہے z جب انسان کی زندگی کا وقت ختم ہوجاتا ہے تو اللہ پاک کے فرشتے رُوح نکالنے کےلئے آتے ہیں z جس شخص کی رُوح نکالی جانی ہوتی ہے اُسےآس پاس فرشتے ہی دکھائی دیتے ہیں z مسلمان کے آس پاس رَحمت کے فرشتے ہوتے ہیں جبکہ غیر مسلم کے آس پاس عذاب کے فرشتے ہوتے ہیں z موت کے وقت ہر شخص پر دینِ اِسلام کا حق ہونا واضح ہوجاتا ہےلیکن اُس وقت اگر کوئی اِسلام قبول کرے تو اس کا مسلمان ہونا قبول نہیں کیا جائے گا کیونکہ اُسے اپنی زندگی میں اِسلام لانے کا حکم دیا گیا تھا اور اب وہ موقع ختم ہوگیاz مرنےکے بعد بھی رُوح کا بَدَن کے ساتھ تعلق باقی رہتا ہے z جس طرح دنیا میں جسم کو پہنچنے والے آرام یا تکلیف کا اِحساس ہماری رُوح کو ہوتا تھا اُسی طرح مرنے کے بعد جسم کو پہنچنے والے آرام یا عذاب کا احساس بھی رُوح کو ہوتا ہے z مرنے کے بعد مسلمان کی روح مختلف مقامات پر رہتی ہے۔ مثلاً: قبر میں (مکہ پاک میں خانہ کعبہ کے قریب) زَم زَم شریف کے کنویں میں آسمان و زمین کے درمیان پہلے سے لے کر ساتویں آسمان تک آسمانوں سے بھی اوپر عرشِ الٰہی (جو آسمانوں سے بھی اوپر ہے اُس) کے نیچے فانوسوں میں جنّت کے نہایت ہی بلند اور اونچے مکانات میں z اِسی طرح غیر مسلموں کی رُوح بھی مختلف جگہوں پر رہتی ہے۔ مثلاً: قبر میں یَمَن کے ایک نالے میںپہلی سے لے کر ساتویں زمین تک ساتوں زمینوں سے نیچے جہنّم کی ایک وادی میں z جو کوئی بھی قبر پر آئے مرنے والا اُسے دیکھتا، پہچانتا اور اُس کی بات بھی سنتا ہے z’’تَناسُخ‘‘ اور ’’آواگون‘‘ یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ ’’مرنے کے بعد روح نکل کر کسی اور انسان /جانور میں چلی جاتی ہے‘‘ کفر ہے z مرنےوالا شخص بات بھی کرتا ہے، لیکن اُس کی بات انسان اور جنّات کے علاوہ سارے حیوان سنتے ہیں z قبر مرنے والے کو دباتی بھی ہے۔ اگر مرنے والا مسلمان ہے تو ایسے دباتی ہے جیسے ماں پیار سے اپنے بچے کو چپٹاتی ہے z اور اگر مرنے والا غیر مسلم ہو تو قبر اتنی زور سے دباتی ہے کہ پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں z جب مرنے والے کو قبر میں دفنا دیا جاتا ہے تو 2 فرشتے اپنے کئی گز لمبے دانتوں سے زمین چیرتے ہوئے قبر میں آتے ہیں اُن کی شکلیں بہت خوفناک ہوتی ہیں آنکھیں کالی اور نیلی اور دیگ جتنی بڑی ہوتی ہیں آنکھوں میں آگ بھڑک رہی ہوتی ہے جسم کا رنگ بھی کالا ہوتا ہےاور پورے جسم پر بال ہوتے ہیں ان میں سے ایک کا نام ’’مُنْکَر‘‘ جبکہ دوسرے کا ’’نَکِیْر‘‘ ہوتا ہے یہ مرنے والے کو جھڑک کر اٹھاتے اور نہایت سختی سے یہ 3 سوالات پوچھتے ہیں:۔ (1)تیرا رب کون ہے؟ (2)تیرا دین کیا ہے؟ (3) (ایک صورت دکھاکر پوچھا جاتا ہے:) اِن کے بارے میں تو کیا کہتا تھا؟ z مرنے والا نیک مسلمان ہو تو یہ جوابات دیتا ہے: (1)میرا رب اللہ پاک ہے (2)میرا دین اسلام ہے (3)یہ تو پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہیں z اِس کے بعد مسلمان کو اُس کے اَعمال کے حساب سے مختلف نعمتیں عطا کی جاتی ہیں اور اُس کا قیامت تک کا وقت بہت آرام میں گزرتا ہے z جبکہ اگر مرنے والا غیر مسلم ہو تو ہر سوال کے جواب میں یہی کہتا ہے: ’’افسوس! مجھے تو کچھ معلوم نہیں، میں تو جو لوگوں کو کہتے سنتا تھا خود بھی وہی کہتا تھا‘‘ z اِس کے بعد مختلف عذابات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور مرنے والا بہت زیادہ تکلیفوں کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے z قبر میں نعمتوں کا ملنا یا عذاب ہونا حق اور سچ ہے z انسان جیسے بھی مَرے، چاہے جل جائے، ڈوب جائے یا کوئی جانور کھاجائے ہر حال میں اُسے بیان کئے گئے سوالات کا جواب دینا ہوتا ہے اور پھر آگے نعمتوں یا عذاب کا سلسلہ ہوتا ہے z انبیائے کِرام علیہم السلام، اولیائے کِرام رحمۃ اللہ علیھم، عُلَمائے کِرام، حافظِ قرآن، شہید، ہمیشہ اللہ پاک کی نافرمانی سے بچنے والے اور اکثر دُرود شریف پڑھنے والے شخص کے بدن کو مٹّی نہیں کھاسکتی z جو انبیائے کرام علیہم السلام کے بارے میں کہے کہ ’’وہ مر کر مٹی میں مل گئے‘‘ ایسا شخص گمراہ اور بے دین ہے۔ (ماخوذ از بہار شریعت،1/98 تا115)