چھٹا دن

عنوان

سبقاً سبقاً مدنی قاعدہ

قومےاور جلسے کی تسبیح کی مشق، دُعائے قنوت

وضو اور غسل توڑنے والی چیزیں

استنجاء کا طریقہ

چوری

بدشگونی

توکل

جنت اور دوزخ کیا ہیں؟

مدنی قاعدہ / اذکار نماز



قومے میں کھڑے ہوتے وقت کی تسبیح: ’’سَمِیْعَ اللہُ حَمِدَہ ‘‘



جلسے کی تسبیح: ’’اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ‘‘



**********

’’وُضو توڑنے والی چیزیں‘‘

01 حدیثِ مُبارَکہ:

مالک و مختار آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا فرمان ہے: تم میں سے کسی کا وضو ٹوٹ جائے تو جب تک وضو نہیں کرے گا اس کا نَماز پڑھنا جائز نہیں ہوگا۔ (مسلم، کتاب الطہارۃ، باب وجوب الطہارۃللصلاۃ، ص115، حدیث:537)

اِن چیزوں کی وجہ سے وُضو ٹوٹ جاتا ہے اورنَماز پڑھنے یا قرآن کریم چھونے کی اِجازت نہیں ہوتی۔

نمبر شمار

وُضو توڑنے والی چیز

01

پیشاب کرنا

02

پاخانہ کرنا

03

ہَوا خارج کرنا

04

بَدَن کی کسی جگہ سے خون یا پیپ کا نکل کر بہہ جانا (آنکھ یا کان کے اندر دانہ وغیرہ پھٹا اور پیپ باہر نہ نکلی تو وضو نہیں ٹوٹے گا)

05

خون یا پیپ وغیرہ کی ایسی اُلٹی ہونا جسے عُموماً روکا نہیں جاسکتا

06

بیماری یا کسی اور وجہ سے بیہوش ہوجانا

07

رکوع و سجدے والی نَماز میں قہقہہ مار کر ہنسنا

08

درد یا مرض کی وجہ سے آنکھ سے آنسو بہنا

09

منہ سے ایسا تھوک نکلنا جو خون کی وجہ سے لال رنگ کا ہوگیا ہو

10

انجکشن / ڈرپ لگوانے کی صورت میں بہتی مقدار میں خون نکلنا

(عموماً انجکشن / ڈرپ لگانے میں پہلے کچھ خون نکالتے ہیں جو اتنا ہوتا ہے کہ اگر جسم پر نکلتا تو بہہ جاتا، اگر ایسا ہے تو وضو ٹوٹ گیا)

11

خون کے ٹیسٹ کروانا (خون ٹیسٹ کے لئے عموماً اتنا خون نکالتے ہیں کہ اگرجسم پر نکلتا تو بہہ جاتا، اگر ایسا ہے تو وضو ٹوٹ گیا)

12

چھالے سے پانی بہنا (آنکھ یا کان کےا ندر چھالاہوا اور پانی باہر نہ نکلا تو وضو نہیں ٹوٹا)

13

غفلت کی نیند اِس طرح سونا کہ دونوں سُرین (Buttocks)جمے ہوئے نہ ہوں

14

مرد / عورت کے آگے یا پیچھے والی جگہ سے کسی چیز کا نکلنا

(ماخوذ از نَماز کے احکام، ص26۔47۔ ہمارا اسلام، ص72)

’’غُسل فرض کرنے والی چیزیں‘‘

01 احادیثِ مُبارَکہ:

مدینے والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا:اُس گھر میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے جس گھر میں تصویر، کتا یا وہ شخص موجود ہو جس پر غُسل فرض ہو۔ (ابو داؤد، کتاب الطہارۃ، باب فی الجنب یؤخر الغسل، 1/109، حدیث: 227)

اِن چیزوں کی وجہ سے غُسل فرض ہوجاتا ہے، ایسی حالت میں مسجد میں آنے، تلاوت کرنے،قرآنِ پاک چھونے اور نَماز پڑھنے کی اجازت نہیں۔

نمبر شمار

غسل فرض کرنے والی چیز

01

مَنِی کا شَہوت کے ساتھ جُدا ہوکر عُضْو سے نکلنا

02

سوتے ہوئے مَنِی کا نکل جانا

03

عورت کی شرْمگاہ میں مردکی شرْمگاہ کا داخل ہونا (اگر مردکی شرْمگاہ کا صرف اوپر کاحصّہ داخل ہوا تب بھی دونوں پر غسل فرض ہوگیا اگرچہ دونوں میں سے کسی کو بھی اِنزال نہ ہوتب بھی دونوں پر غسل فرض ہو جائے گا)

04

عورت کا حیض ختْم ہونا

05

عورت کا نِفاس ختْم ہونا

(ماخوذ از نَماز کے احکام، ص109۔110)

**********

’’اِسلام‘‘ کی خوبیاں

پیارے اِسلامی بھائیو! ہم انسانوں کو روزانہ ہی اپنی غذا کے زائد اجزا (Waste Material) اپنے جسم سے باہر نکالنے کی ضرورت پڑتی ہے اور اس کےلئے ہمیں ’’اِستِنْجا‘‘ کرنا ہوتا ہے جو ہم سب کی صحّت مند زندگی کے لئے بے حد ضروری ہوتا ہے۔

دینِ اسلام نے چونکہ انسان کی روز مرّہ زندگی کے تمام معاملات میں راہ نمائی کی ہے تو یہ کیسے ممکن تھا کہ اتنے اَہَم اور لازمی کام کے ہمیں آداب نہ سکھاتا۔ یوں تو دنیا کا ہر شخص چاہے کسی بھی رنگ و نسل یاکسی بھی ملک سے تعلق رکھنے والاہو یہ کام اپنے تئیں اچھے یا بُرے انداز میں انجام دے ہی لیتا ہے، لیکن یہ کام بھی سلیقے، صفائی اور عقل و شعور نیز معاشرے کے تمام تقاضوں کا خیال رکھتے ہوئے انجام دینے کا طریقہ سکھانا اور اِس کام میں بھی انسان کو اُس کی آخرت کی ہمیشگی والی زندگی میں کام آنے والا ثواب حاصل کرنے کا موقع فراہم کرنا ’’دینِ اسلام‘‘ ہی کی عظیم خصوصیت ہے۔

دنیا میں استنجا کے مختلف طریقے اور اِس کے بعد صفائی کے مختلف انداز رائج ہیں۔ کوئی غیر شرعی چیز نہ ہونے کی صورت میں ’’اِسلام‘‘ اِستنجا کے اُن طریقوں یا صفائی کے اُن سب انداز کو منع نہیں کرتالیکن چند ایسی چیزوں کی طرف ضرور راہ نمائی کرتا ہے جن کے سبب ہمیں نہ صرف دنیا میں فائدہ ہوتا ہے بلکہ اِنْ شَاءَ اللہ آخرت میں بھی وہ چیزیں ہمیں کام آئیں گی۔

صفائی کے لئے ڈھیلے استعمال کرنا سنت ہے مگر ڈھیلے استعمال کرنے کے بعد پانی سے بھی دھولینا ثواب کا کام ہے ڈھیلوں کی کوئی تعداد مقرر نہیں ہے، اگر ایک سے بھی صفائی ہوگئی تو سنت ادا ہوگئی البتہ طاق عدد (یعنی 1/3/5) کے مطابق ڈھیلے استعمال کرنا زیادہ اچھا ہے۔

ایک تحقیق ( Research ) کے مطابِق مِٹّی میں نَوشادَر ( Ammonium Chloride ) نیز بدبُودُور کرنے والے بہترین اَجزا موجود ہیں۔ ’’ ڈاکٹر ہلوک ‘‘ لکھتا ہے: اِستِنجا کے مِٹّی کے ڈَھیلے نے سائنسی دنیا کو وَرطۂ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ مِٹّی کے تمام اَجزا جراثیم کے قاتل ہوتے ہیں لہٰذا مِٹّی کے ڈَھیلے کے استِعمال سے پردے کی جگہ پر موجود جراثیم کا خاتِمہ ہو جاتا ہے بلکہ اِس کا استِعمال ’’ پردے کی جگہ کے کینسر‘‘ ( Cancer of Penis ) سے بچاتا ہے۔

اگر گندگی (ناپاکی)نکلنے کی جگہ کا آس پاس کا حصہ’’1 درہم‘‘ سے زیادہ آلودہ ہوجائے تو اب صرف ڈھیلوں سے پاکی حاصل نہیں ہوگی بلکہ اب دھونا فرض ہوجائے گا کنکر، پتھر اور پھٹا ہوا کپڑا بھی ڈھیلے کے حکم میں ہے، یعنی ان چیزوں سے بھی صفائی کرنے کی اجازت ہے بہتر یہ ہے کہ پھٹا ہوا کپڑا یا درزی کی بے قیمت کترن سوتی (Cotton) ہو تاکہ جلدی جذب کرلے، اس کام کےلئے ٹائلٹ پیپر (Toilet Paper) بھی استعمال کیا جاسکتا ہے پانی میں اللہ پاک نے وہ تمام مفید اجزا رکھے ہیں جن سے جراثیم ، گندَگی اور بیماریاں دور ہوتی ہیں نیز خوب پاکی کا بھی اہتمام ہوجاتا ہے۔ اللہ پاک نے مدینے شریف کی ایک مسجد ’’مسجدِ قُبا‘‘ کے نمازیوں کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

(ترجمہTranslation:) اُس میں وہ لوگ ہیں جو خوب پاک ہونا پسند کرتے ہیں اور اللہ خوب پاک ہونے والوں سے محبّت فرماتا ہے۔ (ترجمۂ کنز العرفان) (پ11، التوبۃ:108)

یہ آیت نازِل ہونے کے بعد پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے اُن لوگوں سے فرمایا: اللہ پاک نے تمہاری پاکی کی تعریف فرمائی ہے، تم کس طرح پاکی حاصل کرتے ہو؟ اُنہوں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم! ہم نمازکے لئے وُضو کرتے، فرض ہونے پر غسل کرتے اور پانی سے استنجا کرتے ہیں۔ یہ سن کر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا: یہی وہ بات ہے جس کی وجہ سے تمہاری تعریف ہوئی، تم اِن چیزوں کو لازِمی کرتے رہنا۔

(ابن ماجہ، ابواب الطہارۃ، باب الاستنجاء بالماء، 1/222، حدیث355)

آئیے! استنجا کی چند سنتیں اور آداب سننے اور سیکھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:۔

’’اِسْتِنْجا کا طریقہ‘‘ مع چند سنتیں اور آداب

e اِستنجا خانے میں جنّات اور شیاطین رہتے ہیں۔ اگر جانے سے ’’بِسْمِ اللہ‘‘ پڑھ لی جائے تو اِس کی بَرَکت سے وہ پردے کی جگہ نہیں دیکھ سکیں گے e داخل ہونے سے پہلے یہ دعا بھی پڑھ لیجئے: ’’ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ‘‘ یعنی یا اللہ! میں ناپاک جِنّوں (نر و مادہ۔ Male & Female) سے تیری پناہ مانگتا ہوںe استنجا خانے میں پہلے اُلٹا قدم داخل کیجئے e سر ڈھانپ کر استنجا کیجئے e یہ دھیان رکھئے کہ استنجا کے دوران قبلہ شریف کو منہ یا پیٹھ بالکل نہ ہوکہ اس دوران قبلے کو سینہ یا پیٹھ کرنا جائز نہیں بلکہ اتنا ہٹ کر استنجا کیجئے کہ قبلے کے رخ سے 45ڈگری(Degree) سے زیادہ باہر ہوجائیں e جب بیٹھنے کے قریب ہو اُس وقت کپڑا بدن سے ہٹائیے اور ضرورت سے زائد بدن نہ کھولئے e دونوں پاؤں ذرا کھلے کرکے اُلٹے پاؤں پر زور دے کر بیٹھئے کہ اِس سے فراغت میں آسانی ہوتی ہے e اِس حالت میں کسی دینی مسئلے پر غور کرنا منع ہے e اسی طرح سلام، اذان یا چھینک کا جواب دینا e بات چیت کرنا e پردے کے مقام پر نظر کرنا e بدن سے نکلی ہوئی گندگی دیکھناe خوامخواہ دیر تک بیٹھے رہنا e تھوکناe ناک صاف کرنا e اِدھر اُدھر دیکھناe اور آسمان کی طرف نظر اٹھانا بھی منع ہےe فراغت کے بعد پہلے اگلا مقام دھوئیے اور پھر پچھلاe سیدھے ہاتھ سے پانی ڈالئے اور الٹے ہاتھ سے دھوئیے e دھونے میں الٹے ہاتھ کی 3 انگلیاں (درمیان والی انگلی، اس کے ساتھ والی انگلی اور چھوٹی انگلی ) استعمال کیجئے e اتنا دھوئیے کہ چکناہٹ اور بُو و غیرہ ختم ہوجائے e لوٹا اونچا رکھئے تاکہ اُس میں چھینٹے نہ پڑیں e فراغت کے بعد ہاتھ صابن (Soap) وغیرہ سے بھی دھو لیجئے e اپنے قدموں کو دھولیجئے تاکہ ناپاک چھینٹوں کا اثر ختم ہوجائے e استنجا خانے سے باہر نکلتے وقت پہلے سیدھا قدم باہر نکالئے e باہر آکر یہ دعا پڑھئے: ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَذْھَبَ عَنِّی الْاَذٰی وَعَا فَانِیْ‘‘ یعنی اللہ پاک کا شکر ہے جس نے مجھ سے تکلیف دہ چیز کو دور کیا اور مجھے راحت عطا فرمائی e غسل خانے میں پیشاب کرنا منع ہے، اِس سے وسوسے آتے ہیں e استنجا کے لئے جانے سے پہلے کچھ دیر چل لینا فراغت میں آسانی کا سبب بنتا ہے e ہوسکے تو استنجا خانے میں جانے سے پہلے کی نیتیں بھی کرلیجئے (اس کےلئے رسالہ ’’استنجا کا طریقہ صفحہ16 تا 18‘‘ کا مطالعہ فرمائیے)۔(ماخوذ ازاستنجا کا طریقہ، ص 2 تا 10)

**********

’چوری ( Thievery ) ‘‘

چوری کی تعریف:

سمجھدار اور بالغ (Adult)شخص کا چھپ کر ایسی چیز اٹھانا جو حِفاظت سے کسی محفوظ جگہ رکھی گئی ہو، اُس چیز کی قیمت 10 دِرہم (یعنی 2 تولہ ساڑھے سات ماشہ(30.618گرام)چاندی) کے برابر یا اِس سے زیادہ ہو اور وہ چیز جلدی خراب بھی نہ ہوسکتی ہو۔ (ماخوذ از صراط الجنان، 2/429۔ بہار شریعت، 2/64)

اللہ پاک کا ارشاد:

(ترجمہTranslation:) اے نبی! جب مسلمان عورتیں تمہارے حضور اِس بات پر بیعت کرنے کے لئے حاضر ہوں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ بدکاری کریں گی اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ وہ بہتان لائیں گی جسے اپنے ہاتھوں اور اپنے پاؤں کے درمیان گھڑیں اور کسی نیک بات میں تمہاری نافرمانی نہ کریں گی تو ان سے بیعت لو اور اللہ سے اُن کی مغفرت چاہو، بیشک اللہ بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ (ترجمۂ کنز العرفان) (پ28، الممتحنہ:12)

چوری کے متعلق3احادیث:

(1)مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا فرمان ہے: جس نے کوئی چیز چوری کی وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے گلے میں آگ کا پٹّا ہوگا۔ (قرۃ العیون و مفرح القلب المحزون، ص392)

(2)اوردوسری حدیث میں فرمایا: جس نے چوری کی اُس نے اپنے گلے سے اِسلام کا پٹّا اُتار دیا، اب اگر وہ توبہ کرتا ہے تو اللہ پاک اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔ (نسائی، کتاب قطع السارق، باب تعظیم السرقۃ، ص783، حدیث:4882)

(3)اسی طرح ایک حدیث میں کچھ یوں ارشاد فرمایا: میں نے جہنّم میں ایک شخص کو دیکھا جو اپنی ٹیڑھی لاٹھی کے ذریعے حاجیوں کی چیزیں چُراتا، جب لوگ اُسے چوری کرتا دیکھ لیتے تو کہتا: میں چور نہیں ہوں، یہ سامان میری لاٹھی میں اٹک گیا تھا۔ وہ آگ میں اپنی ٹیڑھی لاٹھی پر ٹیک لگائے یہ کہہ رہا تھا: میں ٹیڑھی لاٹھی والا چور ہوں۔ (جمع الجوامع للسیوطی، قسم الاقوال، تتمۃ حرف الہمزۃ۔۔۔الخ، 3/27، حدیث:7076)

چوری کے حوالے سے چند مسائل:

(1): چوری کرنا گُنَاہِ کبیرہ، حرام اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے۔(جہنم کے خطرات،ص38ملخصاً) (2): چوری سے حاصِل کئے ہوئے مال کو خرید وفروخت وغیرہ کے کسی کام میں لگانا حرامِ قطعی(یقیناً گناہ ) ہے۔(فتاوی رضویہ،23/551ملتقطاً) (3):اس کو حاصِل کرنے والا اس کا بالکل مالِک نہیں بنتا اور اس مال کے لئے شرعاً فَرض ہے کہ جس کا ہے اُسی کو لوٹا دیا جائے وہ نہ رہا ہو (مر گیا ہو)تو وارِثوں(یعنی مرنے والے کے مال کے صحیح حقداروں) کو دے اور اِن کا بھی پتا نہ چلے(یعنی نہ مالک ملیں اور نہ اس کے رشتہ دار) تو بِلانِیَّتِ ثواب (یعنی ثواب کی نیت کئے بغیر) فقیر پر خیرات کر دے۔(فتاوی رضویہ،23/551ماخوذًا)

چوری کے نقصانات

پیارے اسلامی بھائیو! cچوری حرام اور کبیرہ (بڑا) گناہ ہے۔ (صراط الجنان، 2/429) cچوری کامِل مسلمان بننے میں رکاوٹ ہے cچوری سے دِل آزاری ہوتی ہے cچوری سے بندوں کا حق مارا جاتا ہے cچوری احترام مسلم کے خلاف ہے cچوری کرنا خود کوذلیل کرنے کے برابر ہے c چور کی نہ گھر میں عزّت ہوتی ہےاور نہ ہی معاشرے میں cچورسے نہ کوئی دوستی کرتا ہے اور نہ ہی ہمدردی cچوری سے معاشرےکا امن خراب ہوتا ہے cچوری انسان کو بالآخر ڈاکے اور لوٹ مار تک پہنچادیتی ہے cچور پر کوئی بھی بھروسہ نہیں کرتاcچور ہر جگہ شک کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہےcچور اپنے گھر اور خاندان کے لئے بھی شرم کا باعث بنتا ہےcچور مرنےکے بعد بھی بُرے لفظوں میں یاد کیا جاتا ہے cچوری کی بُرائی کا اندازہ اِس بات سے بھی لگائیے کہ چور بھی اِس بات کو پسند نہیں کرتا کہ اُسے چور کہا جائے۔

چوری کی عادت ہو تو کیسے ختم کی جائے؟

x چوری کے دنیا و آخرت کے نقصانات کو پیش نظر رکھئے x اپنے دل میں مسلمانوں کا احترام پیدا کیجئے اور ان کی جان، مال اور عزّت کے مُحافِظ بنئے x اللہ پاک پر بھروسہ رکھئے اور ہر حال میں اللہ پاک کا شکر ادا کرنے کی عادت بنائیے x مشکل حالات کو اپنا امتحان تصوّر کرتے ہوئے یہ ذہن بنائیے کہ دنیا میں آزمائشیں ہیں اور مجھے آزمائشوں پر صبر کر کے اپنے ربّ کو راضی کرنا ہے x قبْر اور آخرت کی تیاری کی فکْر دل میں پیدا کیجئے، اِس سے ہر نافرمانی والے کام سے بچنےمیں مدد ملے گی x یوں ذِہْن بنائیےکہ چوری کرتے ہوئےبظاہر مجھے کوئی نہیں دیکھ رہا لیکن ’’ اللہ دیکھ رہا ہے‘‘ x اپنے آپ سے یہ پکّا وعدہ کرلیجئے کہ کبھی بھی کسی بھی مسلمان کا حق نہیں ماروں گا۔

نوٹ: چوری کے بارے میں مزید جاننے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ’’بہار شریعت‘‘جلد 2 صفحہ 411 تا 420 کا مطالعہ کیجئے۔

**********

’’بدشگونی‘‘

بدشگونی کی تعریف:

شگون کا مطلب ہوتا ہے: فال لینا۔ جبکہ کسی بھی چیز، شخص، کام، آواز یا وقت کو اپنے حق میں برا سمجھنا بدشگونی یعنی بُری فال لیناکہلاتا ہے۔ (ماخوذ از بدشگونی، ص10) بد شگونی حرام کام ہے۔

اللہ پاک کا ارشاد:

(ترجمہTranslation:) تو جب اُنہیں بھلائی ملتی توکہتے یہ ہمارے لئے ہے اور جب بُرائی پہنچتی تو اُسے موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی نحوست قرار دیتے۔ سن لو! ان کی نحوست اللہ ہی کے پاس ہے لیکن ان میں اکثر نہیں جانتے۔ (ترجمۂ کنز العرفان ) (پ9، الاعراف:131)

تفسیر ’’صراطُ الجنان‘‘ میں ہے: فِرعونی(یعنی فرعون کو خدا ماننے والے) کُفر میں اس قدر راسِخ (یعنی مضبوط) ہوچکے تھے کہ جب اُنہیں سرسبزی و شادابی، پھلوں ،مویشیوں اور رِزْق میں وُسعت ، صحّت ،آفات سے عافیت و سلامتی وغیرہ بھلائی ملتی تو کہتے: یہ توہمیں ملنا ہی تھا، کیونکہ ہم اِس کے اَہْل اور اس کے مستحق ہیں۔یہ لوگ اس بھلائی کونہ تو اللہ پاک کا فضل جانتے او ر نہ ہی اُس کے انعامات پر شکر اد اکرتے اور جب اُنہیں ،قَحْط، خُشک سالی، مرض،تنگی اور آفت وغیرہ کوئی بُرائی پہنچتی تو اُسے حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اور ان کے ساتھیوں کی نحوست قرار دیتے اور کہتے کہ یہ بلائیں اُن کی وجہ سے پہنچیں، اگر یہ نہ ہوتے تویہ مصیبتیں نہ آتیں۔

(صراط الجنان، 3/411)

بدشگونی کے بارے میں حدیثِ مُبارَکہ:

آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:اچّھا یا بُرا شگون لینے کے لئے پرندہ اڑانا اور بدشگونی لینا شیطانی کام ہے۔ (ماخوذ از ابو داؤد، کتاب الطب، باب فی الخط و زجر الطیر، 4/22، حدیث:3907)

عَرَب لوگ پرندے کے سیدھی جانب اُڑنے سے اچّھی فال لیتے یعنی اپنے حق میں اچّھا سمجھتے تھے جبکہ پرندے کے اُلٹی جانب اُڑنے اور کووں (Crows)کے کائیں کائیں کرنے سے بدشگونی لیتے یعنی اپنے حق میں بُرا سمجھتے تھے۔ اِسی طرح عَرَب لوگ عُقاب (ایک طاقتور شکاری پرندہ۔ Eagle) دیکھ کر اُس سے مصیبت کی بدشگونی لیا کرتے تھے یعنی چونکہ میں نے عُقاب دیکھ لیا ہے تو اب میں ضرور کسی مصیبت میں مبتلا ہوجاؤں گا۔

(بریقہ محمودیہ شرح طریقہ محمدیہ، باب الخامس والعشرون، 2/378ماخوذا۔تفسیر کبیر، 5/344 ملتقطا و ماخوذا)

بدشگونی کی چند مثالیں:

e اندھے، لنگڑے، ایک آنکھ والے یا کسی معذور شخص کو دیکھ کر بُرا دن گزرنے کی بدشگونی لینا eایمبولینس، فائر بریگیڈ، کسی خاص پرندے یا جانور وغیرہ کی آواز کو اپنے حق میں بُرا سمجھنا eسیدھی یا اُلٹی آنکھ پھڑکنے سے کسی مصیبت کے آنے کا یقین کرلینا e13 کے عدد کو منحوس سمجھنا۔

بدشگونی کی ایک نشانی:

کسی کام کو اپنے حق میں برا جانتے ہوئے نہ کرنا۔اللہ پاک کے مَحبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہ وَاٰلَہٖ وَسَلَّم نے فرمایا :''(جو)بدشگونی کی وجہ سے سفر سے لوٹ آیا وہ بلند درجوں تک ہر گز نہیں پہنچ سکتا۔

(ابن عساکر، رجاءبن حیوة،۱۸/۹۸)

بدشگونی حرام ہے :

مفتی احمد یارخان رَحمَةُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: اسلام میں نیک فال(کسی چیز کو اپنے حق میں اچھا سمجھ) لینا جائز ہے، بدفالی بدشگونی لینا حرام(اور گناہ) ہے۔ (تفسیرنعیمی، پ۹، اعراف، تحت الآیۃ۱۳۱، ۹/۱۱۹)

یاد رہے!

اگر کسی نے بَدشگونی کا خیال دل میں آتے ہی اسے جھٹک دیا تو اس پر گناہ نہیں لیکن اگر بَدشگونی کے سبب اس کام سے رُک گیا تو گناہ گار ہوگا مثلاً کسی چیز کو منحوس سمجھ کر سفر یا کاروبار کرنے سے یہ سوچ کر رُک گیا کہ مجھے نقصان ہی ہوگاتو اب گنہگار ہوگا۔

بدشگونی سے بچنے کے چند علاج:

a یہ ذِہْن بنالیجئے کہ کسی بھی چیز کے ہونے یا نہ ہونے سے کچھ نہیں ہوتا، وہی ہوتا ہے جو اللہ پاک چاہتا ہے اور ہماری قسمت میں لکھا ہوتا ہے a جب بھی بدشگونی کے خیالات آئیں اللہ پاک سے دُعا کیجئے اور اِسی پر بھروسہ کرتے ہوئے ہر بُر ا خیال دل سے نکال دیجئے a بدشگونی کی وجہ سے کسی کام سے مت رکئے اور فائدہ و نقصان اللہ پاک پر چھوڑدیجئے a بدشگونی کے متعلق معلومات حاصل کیجئے اور اِس بیماری سے نجات حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کیجئے aآقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہ وَاٰلَہٖ وَسَلَّم کا فرمان ہے:تین بیماریاں میری اُمت کو ضرور ہوں گی: حسد، بدگمانی اور بدفالی۔کیا میں تمہیں ان سے چھٹکارے کاطریقہ نہ بتادوں؟ جب تم میں بدگمانی پیدا ہو تو اس پر یقین نہ کرو،اور جب حسد میں مبتلا ہو تو اللہ پاک سے استغفار (توبہ)کر لیا کرو اور جب بدشگونی پیدا ہو تو اس کام کو کر گزرو۔ (جامع صغیر، حرف الثاء، ص۲۰۹، حدیث: ۳۴۶۶)

نوٹ: بدشگونی کے بارے میں مزید جاننے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب’’بدشگونی‘‘ کا مطالعہ مفید رہے گا۔

**********

’’توکُّل‘‘

توکُّل کی تعریف:

کسی بھی کام کو کرنے کے لئے اُس کے اسباب اور ذرائع استعمال کرنا اور صرف اللہ پاک پر بھروسہ رکھتے ہوئے نتیجہ اللہ پاک پر چھوڑدینا۔ (ماخوذ از نجات دلانے والے اعمال کی معلومات، ص 157)

توکُّل کے بارے میں قرآن کی آیت:

(ترجمہTranslation:) اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اُسے کافی ہے۔ (ترجمۂ کنز العرفان ) (پ28، الطلاق:3)

عُلَما فرماتے ہیں: اِس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر مسلمان کو اللہ پاک پر توکل کرنا چاہئےاور اپنے تمام اُمور (یعنی کاموں)میں اُسی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ اللہ پاک ہمیں جیسا توکل کرنےکا حق ہے ویسا توکل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (صراط الجنان، 10/202)

توکُّل کے بارے میں حدیث :

ہم غریبوں کو سہارا دینے والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اگر تم اللہ پاک پر اس طرح بھروسہ کرو جیسے اس پر بھروسہ کرنے کا حق ہے تو وہ تمہیں اُس طرح رِزْق عطا فرمائے گا جیسے پرندوں کو عطا فرماتا ہے کہ وہ صبح کے وقت خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر لوٹتے ہیں۔

(ترمذی، ابواب الزہد، باب فی التوکل علی اللہ، 4/154، حدیث:2351)

توکُّل کی عادت بنانے کے لئے چند مدنی پھول:

k توکل کے بارے میں اِسلام کی تعلیمات اور بزرگوں کے اقوال کا مطالعہ کیجئے k ہر معاملے میں اللہ پاک کی قدرت پر مکمّل بھروسہ رکھئے k ہر وقت اللہ پاک سے پناہ مانگئےکہ اس سے توکل پیداہونے میں مدد ملتی ہے k توکل کے دین و دنیا کے فوائد کو پیش نظر رکھئے k ایسے لوگوں کے ساتھ رہئے جو توکل کرنے والے اور اللہ پاک ہی پر بھروسہ رکھنے والے ہوں k خودداری پیدا کیجئے اور لوگوں کی محتاجی سے خود کو بچاتے ہوئے اللہ پاک سے مدد طلب کیجئےk ربِّ کریم کی عطاؤں پر غور کیجئے! توکُّل کا ذِہْن بنے گا کہ جو ربّ پرندوں کو روزی دیتا ہے، وہ مجھ پر بھی کَرَم فرما کر میرے کام پورے کرے گا k بچّے سے درْس حاصل کیجئے کہ وہ ہر معاملے میں اپنی ماں پر بھروسہ کرتا اور ہر پریشانی میں اسی کی طرف جاتا ہے اور ماں اُس کے کام کر دیتی ہے، جبکہ رب تو 70 ماؤں سے بڑھ کر بندوں سے پیار فرماتا ہے، تو جب ہر معاملے میں اُس کی بارگاہ میں دعا کی جائے گی تو وہ کیوں کَرَم نہ فرمائے گا!!k اگر دعا کے باوجود بھی جو چاہت تھی وہ پوری نہ ہوئی تو اسے بھی اپنے ربّ کا احسان جانئے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ چاہت ہمارے حق میں بہتر نہ ہوتی، اس لئےربّ نے اسے پورا نہ کیا یا ہماری آخرت میں کام آنےکے لئے اُس دعا کو جمع کر لیا k توکل پیدا کرنے کے طریقوں پر عمل بھی کیجئے اور اللہ پاک سے دعا بھی کیجئے کہ وہ توکل کی قیمتی دولت عطا فرمائے۔

(ماخوذ ازنجات دلانے والے اعمال کی معلومات، ص 161۔166)

نوٹ: توکُّل کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ’’احیاء العلوم جلد 4 صفحہ 732تا 871 ‘‘ کامطالعہ مفید رہے گا۔

**********

اللہ پاک کے احسان

پیارے اسلامی بھائیو! ہمارا پیارا اللہ پاک ہم پر کتنا مہربان ہے کہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ اُسی کی عطا اور قدرت کی جیتی جاگتی تصویر نظر آتا ہے۔ ہر طرف اُسی کی نعمتوں اور اُسی کے فضل و کرم کی بہاریں ہیں۔

’’آگ‘‘ ہی کی بات کی جائے، تو اِس ایک چیز میں ہی رب کی قدرت کے حسین نظارے ہیں۔

r آگ کو اللہ پاک نے اِس خوبصورت انداز میں پیدا فرمایا ہے کہ جب اِس کی ضرورت ہوتی ہے انسان اِس کو وُجود میں لے آتا ہے اور جب ضرورت نہیں ہوتی تو ختم کردیتا ہے rاگر آگ اِس انداز پر ہمیں عطا نہ ہوتی بلکہ ہرطرف موجود اور پھیلی رہتی تو بہت نقصان ہوسکتا تھا، گویا r آگ ایک چھپا ہوا خزانہ ہے۔

آگ کے بے شمار فائدے ہیں:۔

r آگ کی وجہ سے ہی ہمارے کھانے اور مشروبات تیار ہوتے ہیں r آگ نہ ہوتی تو اناج اور پانی مل کر کوئی غذا نہیں بناسکتے تھے rاِسی طرح بغیر پکائے کھانے یا پینے کی چیزیں استعمال کرنے سے نظامِ ہاضِمہ بھی خراب ہوجاتاrآگ ہی کی وجہ سے اللہ پاک کی عطا کردہ کئی دھاتوں سے ہم فائدہ اٹھا پاتے ہیں rآگ ہی سے سونے، چاندی، تانبے اور پیتل وغیرہ کو مختلف شکلوں میں ڈھال کر استعمال کیا جاتا ہے rمختلف زیورات کا بننا، برتنوں کا ڈھلنا اور دیگر کئی فائدے آگ ہی کی مرہونِ منّت ہیں rاور یہی فوائد حاصل کرنے کی وجہ سے اللہ پاک نے حضرتِ داؤد علیہ السّلام کی آل اولاد کو شکر کرنے کاحکم دیا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:

(ترجمہ Translation :) اے داؤد کی آل! شکر کرو! اور میرے بندوں میں شکر والے کم ہیں۔

(ترجمۂ کنز العرفان ) (پ22، سبا:13)

r آگ ہی کی وجہ سے لوہا نرْم کیا جاتا ہے اور پھر اُس سے تلواریں، زِرہیں، ڈھالیں اور دیگر کئی جنگی آلات تیار ہوتے ہیں، جن سے انسان اپنی جان، قوم اور ملک کا بھی تحفظ کرتا ہے۔ اور یہی وہ معجزہ تھا جو اللہ پاک نے حضرتِ داؤد علیہ السلام کو عطا کیا تھا کہ لوہا آپ کے ہاتھوں میں نرْم ہوجاتا تھا اور آپ اُس سے زِرہ بناتے تھے۔ اللہ پاک فرماتا ہے:

(ترجمہ Translation :) اور ہم نے تمہارے فائدے کے لئے اُسے ایک خاص لباس کی صنعت سکھادی تاکہ تمہیں تمہاری جنگ کی آنچ سے بچائے تو کیا تم شکر ادا کرو گے؟ (ترجمۂ کنز العرفان ) (پ17، الانبیاء:80)

r لوہے سے ہی کھیتی باڑی، راستے بنانے، پہاڑوں کو کاٹنےاور لکڑی سے مختلف چیزیں بنانے کے آلات اور اوزار وغیرہ بنائے جاتے ہیں اور یہ لوہا آگ ہی کی وجہ سے اِن شکلوں میں ڈھلتا چلا جاتا ہے، تو اگر آگ نہ ہوتی تو یہ سب چیزیں بھی نہ ہوتیں۔ اللہ پاک فرماتا ہے:

(ترجمہ Translation :) اور ہم نے لوہا اتارا، اُس میں سخت لڑائی (کا سامان) ہے اور لوگوں کے لئے فائدے ہیں۔ (ترجمۂ کنز العرفان ) (پ27، الحدید:25)

r آگ میں اللہ پاک نے انسان کی خوشی اور فرحت کا سامان بھی رکھا ہے کہ جب رات کا اندھیرے سے دل گھبراتا ہے تو آگ کے ذریعے اندھیرا دور ہوتا اور دل کو سکون ملتا ہے rآگ کی وجہ سے رات میں کھانے پینے میں آسانی ہوجاتی ہے rآگ کی وجہ سے اندھیرے میں راستہ بھٹک جانے سے حفاظت رہتی ہے rآگ کی وجہ سے رات کے وقت تکلیف دہ جانوروں اور کیڑے مکوڑوں سے بچاؤ ہوجاتا ہے rاور آگ سردی سے بھی ہماری حفاظت کرتی ہے۔ اللہ پاک فرماتا ہے:۔

(ترجمہ Translation :) تو بھلا بتاؤ تو وہ آگ جو تم روشن کرتے ہو ۔ کیا تم نے اُس کا درخت پیدا کیا یا ہم ہی پیدا کرنے والے ہیں؟ ہم نے اُسے (جہنم کی آگ کی) یادگار بنایا اور جنگل میں سفر کرنے والوں کے لئے نفع بنایا۔ تو اے محبوب! تم اپنے عظمت والے رب کے نام کی پاکی بیان کرو۔ (ترجمۂ کنز العرفان ) (پ27، الواقعۃ:71تا74)

(ماخوذ از مجموعۃ رسائل امام غزالی، الحکمۃ فی مخلوقات اللہ، ص17)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب

صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

میرے نبی صلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی شان

اللہ پاک کے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَکے صحابی حضرت محمد بن حاطِب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری امی جان رضی اللہ عنہا نےمجھے بتایا: میں تمہیں لے کر مُلکِ حَبَشہ سے آرہی تھی، مدینے شریف سے کچھ دور میں نے کھانا پکایا، اُسی دوران لکڑیاں ختم ہوگئیں، میں لکڑیاں لینے گئی تو تم نے ہنڈیا (Pot) کو کھینچا، ہنڈیا تمہارے ہاتھ پر گر گئی اور تمہارا ہاتھ جل گیا۔ میں تمہیں لے کر مُحَمَّدٌ رَّسُوْ لُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! یہ محمد بن حاطب ہے۔ پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے تمہارے سر پر اپنا مبارک ہاتھ پھیرا اور تمہارے لئے دعا کی، پھر تمہارے ہاتھ پر اپنا لُعاب مُبارَک (یعنی بَرَکت والا تھوک) لگایا۔ جب میں تمہیں لے کر وہاں سے اٹھی تو تمہارا ہاتھ بالکل ٹھیک ہوچکا تھا۔

(مسند احمد، 5/265، حدیث:15453ملخصاً)

دُکھ درْد کہیں کس سے، یہ کام تو ہیں اُن کے

فریاد سُنا کرنا اور داد دیا کرنا

وَاللہ وہ سُن لیں گے اور دل کی دوا دیں گے

بے کار نہ جائے گا فریاد و بُکا کرنا

کِھل جائیں چمن دل کے اور حُزْن مِٹیں دل کے

طیبہ سے صبا آکے اِمداد ذرا کرنا

ہر داغ مٹا دینا اور دل کو شِفا دینا

آئینہ بنادینا ایسی تو جِلا کرنا

(سامان بخشش، ص64۔64)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب

صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

’’جنّت کے بارے میں اِسلام کے چند بنیادی عقیدے‘‘

z ’’جنّت‘‘ ایک مکان ہے جو اللہ پاک نے ایمان والوں کے لئے بنایا ہے z جنّت میں ایسی نعمتیں ہیں جنہیں نہ کسی شخص نے کبھی دیکھا نہ اُن کے بارے میں سُنا اور نہ ہی کسی کے دل میں ویسی نعمتوں کا کبھی خیال آیا z جنّت کی تعریف کےلئے جو بھی مثال دی جاتی ہے وہ صِرْف سمجھانے کے لئے ہوتی ہے ورنہ در حقیقت دنیا کی اعلیٰ ترین چیز کا بھی جنّت کی کسی چیز سے تقابُل (Comparison)نہیں کیا جاسکتا z جنّت کی ناخُن جتنی چیز بھی آسمان و زمین سجانے کےلئے کافی ہے z جنّت کی اتنی جگہ جس میں چابُک (کَوڑا۔ Whip) رکھا جاسکے دنیا اور اس کی ہرچیز سے بہتر ہے z جنّت میں 100 دَرَجے(یعنی منزلیں) ہیں، ہر دو دَرَجوں کے درمیان اِتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین کے درمیان ہے، اور ہر دَرَجہ اتنا بڑا ہے کہ سارا عالَم (یعنی سارا جہاں) اُس میں آسکتا ہے z جنّت میں ایک ایسا درخت ہے کہ اُس کے سایے میں 100 سال تک کوئی تیز رفتار گھوڑا دوڑتا رہے تب بھی وہ ختم نہیں ہوگا z جنّت کے دروازے اِتنے بڑے ہیں کہ ہر دروازے کے درمیان تیز رفتارگھوڑا 70 سال تک دوڑ سکتا ہے، اِس کے باوُجود جب جنّتی جنّت میں جائیں گے تو رَش کی وجہ سے دروازہ چَرچَرانے لگے گا z جنّت کے مَحَلّات طرح طرح کے ہیرے اور جواہرا ت سے بنے ہوئے ہیں اور صاف و شفاف اِتنے ہیں کہ اندر کا حصّہ باہر سے نظر آتا ہے z جنّت کی دیواریں سونے چاندی کی اینٹوں اور مُشک کے گارے سے بنی ہیں z جنّت میں 04 دریا ہیں جن سے نہریں نکل کر ہر جنّتی کے مکان میں جاتی ہیں:۔ (1)پانی کا دریا(2)دودھ کا دریا (3)شہد کا دریا (4)پاکیزہ شراب کا دریا z جنّت کی شراب میں دنیا کی شراب کی طرح بدبو، کڑواہٹ اور نشہ نہیں ہےکہ پینے والا آپے سے باہر ہوکر بیہودہ باتیں کہنے لگے، جنّتی شراب نہایت پاکیزہ ہے z جنّت میں ہر قسم کا لذیذ کھانا ملے گا، جنّتی جو کھاناجتنی مقدار میں کھانا چاہے گا فوراً اُس کے سامنے آجائے گا z جنّت میں نَجاست، گندَگی، پاخانہ، پیشاب، تھوک، رینٹھ، کان کا میل اور بدن کا میل بالکل نہیں ہوگا z کھانے پینے کے بعد ایک خوشبودار ڈکار آئےگی، خوشبودار پسینہ نکلے گا اور سب کھانا ہَضْم ہوجائے گا z ہر جنّتی کو 100 آدمیوں کے برابر کھانے پینے کی طاقت دی جائے گی z ہر وقت اُن کی زبان سے ’’سُبْحٰنَ اللہ‘‘ اور ’’اَللہُ اَکْبَر‘‘ کا ذِکْر سانس کی طرح چلتارہے گا z جنّتی سب ایک دل ہوں گے، آپس میں کوئی اختلاف نہیں ہوگا z ہر جنّتی کو کم ازکم 2حوریں ایسی ملیں گی کہ 70، 70 لباس پہننے کے باجوداُن کی پنڈلیوں کا مغز ایسے نظر آرہا ہوگا جیسے سفید شیشے میں لال رنگ کی شراب نظر آتی ہے z انسان اپنا چہرہ حُور کے گال میں شیشے سے بھی زیادہ صاف دیکھے گا z مرد جب بھی حُور کے پاس جائے گا اُسے کنواری ہی پائے گا z اگر کوئی حُور سمندر میں تھوک دے تو سمندر میٹھا ہوجائے z حوریں جنّت میں نغمے بھی سنائیں گی، اُن کے نغموں میں شیطانی مزامیر (ڈھول، باجے اور آلات موسیقی)نہیں بلکہ اللہ پاک کی حَمْد ہوگی z اگر جنّت کا کوئی کپڑا دنیا میں پہنا جائے تو جو دیکھے بیہوش ہوجائے اور اس پر نِگاہ نہ جماسکے z ہر جنّتی کی عمر 30 سال ہوگی اور سَرکے بال، پلکوں اور بھنووں کے علاوہ اُن کے بدن پر کہیں بال نہیں ہوں گے z اگر کسی کو اولاد کی خواہش ہوگی تو وہ فورا ہی پیدا ہوجائے گی اور اُس کی عمر بھی 30 سال کی ہوگی z جنّت میں نیند نہیں ہے، کیونکہ نیند ایک قسم کی موت ہے اور جنّت میں موت نہیں z جنّت میں ہر ہفتے اللہ پاک کا دیدار بھی ہوگا اور یہی جنّت کی سب سے بڑی نعمت ہے z جنّت میں ہرہفتے بازار بھی لگے گا جسے فرشتے گھیرے ہوئے ہوں گے، اُس بازار میں ایسی چیزیں ہوں گی کہ ہماری سوچ وہاں تک نہیں پہنچ سکتی، جنّتی اُس بازار سے جو چیز لینا چاہیں گے بغیر قیمت کے اُنہیں دے دی جائے گی z سب سے کم دَرَجے والے جنّتی کے پاس بھی اِتنے باغات اور دیگر نعمتیں ہوں گی کہ اُنہیں دیکھنے کے لئے 1000 سال درکار ہوں گے۔ (ماخوذ از بہار شریعت، 1/152 تا162)

اللہ پاک ہمیں اپنے فَضل و رَحمت سے جنّت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین

’’ جہنّم کے بارے میں اِسلام کے چند بنیادی عقیدے‘‘

z ’’جہنّم‘‘ ایک مکان ہے جو اللہ پاک کے قَہْر اور جَلال کی جگہ ہے z ہر وہ بڑی سے بڑی تکلیف جو محسوس کی جاسکے یا سوچی جاسکے جہنّم کے مُقابَلے میں کچھ نہیں z جہنّم کی چنگاریاں اُونچے اُونچے مَحَلّات کے برابر اُڑیں گی z جہنّم کی آگ کو بھڑکانے کے لئے اُس میں آدَمی اور پتّھر ڈالے جائیں گے z دنیا کی آگ جہنّم کی آگ کا 70 واں حصّہ ہے z جہنّم کا سب سے ہلکا عذاب یہ ہے کہ جہنّمی کو آگ کی جوتیاں پہنادی جائیں گی جس سے اُس کا دِماغ ایسے کَھولے گا جیسے تانبےکی پتیلی کَھولتی ہے، اور وہ شخص سوچے گا کہ سب سے زیادہ عذاب اُسے ہی ہورہا ہے z سب سے ہلکے عذاب والے سے اللہ پاک پوچھے گا: اگر ساری زمین تجھے دے دی جائے تو اس عذاب سے چھٹکارا پانے کے لئے وہ ساری زمین دے دے گا؟ عرض کرے گا: جی ہاں۔ اللہ پاک فرمائے گا: ہم نے تو تجھے بہت آسان چیز کا حکم دیاتھا کہ ’’کُفر نہ کرنا‘‘ مگر تو نہیں مانا z جہنّم کی آگ 1000 سال تک بھڑکائی گئی ، یہاں تک کہ لال ہوگئی، پھر 1000 سال تک بھڑکائی گئی، یہاں تک کہ سفید ہوگئی، اُس کے بعد پھر 1000 سال تک بھڑکائی گئی، یہاں تک کہ کالی ہوگئی، اب وہ نہایت کالی ہے z اگر جہنّم سُوئی کے سُوراخ کے برابر کھول دی جائے تو سارے زمین والے اُس کی گرمی سے مرجائیں z اگر جہنّم کا کوئی مُحافِظ/ نگران دنیا والوں کو دکھایا جائے تو سب کے سب اُس کے خوف سے مرجائیں z جہنّمیوں کی زنجیر کی ایک کڑی(یعنی لوہے کا حلقہ۔Link of Chain) بھی اگر دنیا کے پہاڑوں پر رکھ دی جائے تو وہ کانپنے لگیں، یہاں تک کہ زمین میں دھنس جائیں z دنیا کی آگ بھی اللہ پاک سے پناہ مانگتی ہے کہ اسے جہنّم میں دوبارہ نہ لے جایا جائے، مگر تعجّب ہے انسان پر! کہ جہنّم میں جانے والے کام کرتا ہے z جہنّم اتنی گہری ہے کہ اگر پتّھر کی چٹّان جہنّم کے کنارے سے اندر پھینکی جائے تو 70 سال میں بھی اُس کی تہہ میں نہیں پہنچے گی z جہنّم میں ایسی وادیاں بھی ہیں جن سے جہنّم خود روزانہ 70 یا اِس سے زیادہ بار پناہ مانگتا ہے z جہنّم میں لوہے کے گُرز ( ایک قسم کا ہتھیار)سے فرشتے ماریں گے، اگر 1 گُرز بھی زمین پر رکھ دیا جائے تو سارے انسان اور جنّات مل کر بھی اُسے اٹھا نہیں سکتے z جہنّم میں مزید یہ عذابات بھی ہیں:۔ بڑی قسم کے اُونٹوں کی گردن کے برابر بچّھو اور بڑے بڑے سانپ کاٹیں گے، اُن کے ایک بار کاٹنے کی وجہ سے 1000 سال تک درْد، جلَن اور بے چینی ختم نہیں ہوگی تیل کی جلی ہوئی تہہ کی طرح کا سخت کھولتا ہوا پانی پینے کو دیا جائے گا کہ منہ کے قریب آتے ہی چہرے کی کھال اُس میں گِر جائے گیسَر پر گرم پانی بہایا جائے گا جہنّمیوں کے بدن سے جو پیپ بہے گی وہ پلائی جائے گی کانٹوں والا زہریلا درخت کھانے کو دیا جائے گا، جو جاکر گلے میں پھنس جائے گا، اُسے اُتارنے کے لئے پانی مانگیں گے تو اِتنا کھولتا ہوا پانی دیا جائے گا کہ پیٹ میں جاتے ہی آنتوں (Intestines) کو ٹکڑے ٹکڑے کردے گا اور وہ شوربے کی طرح بہتی ہوئی نکل جائیں گی شدید پیاسے اُونٹوں کی طرح جہنّمیوں کو پیاس محسوس ہوگی z جہنّمی اِن سارے عذابات سے عاجِز آکر جہنّم کے محُافِظ حضرتِ مالِک علیہ السّلام کو پکاریں گے کہ اللہ پاک ہمارا قصّہ تمام کردے۔ وہ 1000 سال تک کوئی جواب نہیں دیں گے، اُس کے بعد فرمائیں گے: مجھ سے کیا کہتے ہو؟ اُس سے کہو جس کی نافرمانی کی ہے۔ پھر جہنّمی 1000 سال تک اللہ پاک کو اُس کے رَحمت والے ناموں سے پکارتے رہیں گے۔ 1000 سال بعد اللہ پاک فرمائے گا: دور ہوجاؤ! جہنّم میں پڑے رہو! مجھ سے بات نہ کرو! اُس وقت غیر مسلم ہر طرح کی بھلائی سے نااُمید ہوجائیں گے اور گدھے کی آواز میں چِلّا چِلّا کر اِتنا روئیں گے کہ آنسو ختم ہوجائیں گےاور آنسوؤں کی جگہ خون بہنے لگے گا، روتے روتے گالوں میں گڑھے پڑجائیں گے اور رونے کی وجہ سے اِتنا خون اور پیپ بہے گا کہ اگر اُس میں کشتیاں ڈالی جائیں تو چلنے لگیں z جہنّمی کی شکل اِتنی بُری ہوگی کہ اگر دنیا میں وہ شکل دکھا دی جائے تو اُس کی بدصورتی اور بدبو کی وجہ سے سب مرجائیں z جہنّمی کا جسم اتنا بڑا کردیا جائے گا کہ ایک کندھے سے دوسرے کندھے تک پہنچنے کے لئے تیز سواری والے شخص کو 3 دن لگیں گے، ایک داڑھ اُحُد پہاڑ جتنی ہوگی، کھال 42 گز موٹی ہوگی اور زبان 3 یا 4 ہزار گز لمبی ہوگی z غیر مسلموں کو آگ کے صندوق میں ڈالا جائے گا، پھر اُس میں آگ بھڑکائی جائے گی اور آگ کا تالا لگایا جائے گا، پھر یہ صندوق آگ کے دوسرے صندوق میں ڈالا جائے گا اور اُس میں بھی آگ بھڑکا کر آگ کا تالالگادیا جائے گا، ایسا ہی ایک مرتبہ اور ہوگا۔ غیر مسلم سمجھے گا کہ اُس کے سوا اب کوئی آگ میں نہیں رہا ۔ یہ اُس کے لئے عذاب بالائے عذاب اور ہمیشہ کا عذاب ہوگا۔

(ماخوذ از بہار شریعت،1/163تا171)

نوٹ: جب سب جنّتی جنّت میں اور سب جہنّمی جہنّم میں چلے جائیں گے تو جنّت اور دوزخ کے درمیان ’’موت‘‘ کو ایک دُنبے کی شکل میں لاکر کھڑا کیا جائے گا اور جنّتیوں اور جہنّمیوں کو آواز دی جائے گی۔ جنّت والے ڈرتے ہوئے جھانکیں گے کہ کہیں جنّت سے نکلنے کا حکم نہ ہو جبکہ جہنّمی خوشی سے جھانکیں گے کہ ہوسکتا ہے جہنّم سے رِہائی ملنے والی ہو۔ اُن سب سے پوچھا جائے گا کہ اِسے پہچانتے ہو؟ وہ کہیں گے: ہاں! یہ موت ہے۔ اُس کے بعد اُسے ذَبْح کردیا جائے گا اور کہا جائے گا: اے جنّت والو! اب مرنا نہیں ہے، ہمیشہ جنّت میں رہنا ہے، اور اے جہنّم والو! اب مرنا نہیں ہے، ہمیشہ جہنّم میں رہنا ہے۔ اُس وقت جنّت والوں کے لئے خوشی ہی خوشی ہوگی اور جہنّم والوں کے لئے غم ہی غم۔ (ماخوذ از بہار شریعت،1/171)

اللہ پاک ہمیں ایک لمحہ کے کروڑویں حصّے کے لئے بھی جہنّم میں داخل نہ فرمائے۔ آمین