ساتواں دن

عنوان

سبقاً سبقاً مدنی قاعدہ

سب تسبیحات کی دہرائی

سب اذکار کی دہرائی

سب مسائل کی دہرائی

زینت کی سنتیں اور آداب

گانے سننا

حسد

ایثار

ایمان اور کفر کیا ہے؟

مدنی قاعدہ / اذکار نماز

نوٹ: اذکارِ نَماز اور تسبیحات کی دہرائی کے لئے پچھلے دنوں کا نصاب ملاحظہ کیجئے۔

**********

نماز کے احکام

نوٹ: مسائل کی دہرائی کے لئے پچھلے دنوں کا نصاب ملاحظہ کیجئے۔

**********

’’اِسلام‘‘ کی خوبیاں

پیارے اِسلامی بھائیو! دنیا میں اکثر لوگ اچّھا کھانا، اچّھا پہننا، اچّھا رہنا اور اچّھا نظر آنا پسند کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں فوڈ کلچر (Food Culture) بڑھتا چلا جارہا ہے، نِت نئے ڈیزائنز (Designs) اور طرح طرح کے ملبوسات (Dresses) منظرِ عام پر آتے جارہے ہیں، رِہائش کے اعلیٰ سے اعلیٰ منصوبے (Projects) تیّار کئے جارہے ہیں اور اچّھا نظر آنے کے لئے تو جو کچھ کیا جارہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔

ہر شخص جانتا ہے کہ عموماً ہر چیز کی ایک حد (Limit) ہوتی ہے اور جب تک وہ اپنی حد میں رہتی ہے اچّھی بھی لگتی ہے۔ لیکن جب وہ اپنی حد سے باہر ہوجائے تو اپنی خوبصورتی بھی کھودیتی ہے اور نقصان کا سبب بھی بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں فیشن (Fashion)اور لگژریز (Luxuries)کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ یقیناً کسی بھی سنجیدہ معاشرے کو زیب نہیں دیتا اور اِسی وجہ سے اَخلاقی، معاشی اور معاشَرَتی نقصانات آج دنیا بھر میں اپنی آخری حدوں کو چھورہے ہیں۔

دینِ اِسلام انتہائی نفیس، عمدہ اور حسین ترین دین ہے، یہ ہمیں جہاں ہر وقت صاف رہنےکا حکم دیتا ہے وہاں زینت اختیار کرنے اور اچّھی حالت و صورت میں رہنے کا بھی درْس دیتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمیں میانہ روی اور شرعی حُدود کا خیال رکھنا بھی سکھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اِسلامی اَحکامات میں سلیقہ اور نفاست دکھائی دیتی ہے اور عقل و شعور رکھنے والا ہر شخص اِسے مانتاہے۔ ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے خود عملی طور پر اِسلام کے اَحکامات پر عمل کرکے دکھایا اور رہتی دنیا کے مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت کے لئے ایک بہترین نمونہ، رول ماڈل (Roll Model) اور ترقّی کا نشان ثابِت ہوئے۔

اللہ پاک اِرشاد فرماتا ہے: (ترجمہ Translation :) اے ایمان والو! اِسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ (ترجمۂ کنز العرفان) (پ2، البقرۃ:208)

تفسیر ’’صِراط الجنان‘‘ میں ہے: اَہلِ کتاب میں سے حضرت عبدُ اللہ بن سَلام رضی اللہ عنہ اور اُن کے ساتھی، پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم پر ایمان لانے کے بعد حضرتِ موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے بعض اَحکامات پر عمل کرتے رہے، ہفتہ (Saturday)کے دن کی تعظیم کرتے، اِس دن شکار کرنے سے بچتے، اُونٹ کے دودھ اور گوشت سے پرہیز کرتے اور یہ سوچتے کہ یہ چیزیں اِسلام میں صرف جائز ہیں، اِن کا کرنا ضروری نہیں، جبکہ توریت میں اِن چیزوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے تو اِن چیزوں کو چھوڑنے میں توریت پر بھی عمل ہوجاتا ہے اور اِسلام کی مخالفت بھی نہیں ہوتی۔ اِس بات پر یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ اِسلام کے احکام پر پورا عمل کرو۔ یعنی توریت کے احکامات اب ختم ہوگئے ہیں، اب اُن کی طرف توجّہ نہ دو۔

یاد رکھئے کہ داڑھی منڈوانا، مُشرِکوں جیسا لباس پہننا اور اپنی زندگی بے دینوں جیسی گزارنا بھی ایمان کمزور ہونے کی علامت ہے۔ جب مسلمان ہوگئے تو سیرت و صورت، ظاہِر و باطن، عبادات و معاملات، رہن سہن، میل برتاؤ، زندگی موت، تجارت و ملازمت سب میں اپنے دین پر عمل کرو۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمان کا دوسرے مذاہِب یا دوسرے دین والوں کی رِعایت کرنا شیطانی دھوکے میں آنا ہے۔

(ماخوذ از صراط الجنان، 1/324۔325)

آئیے! زینت کی چند سنتیں اور آداب سننے اور سیکھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:۔

زینت کی سنتیں اور آداب

e مَردوں کے لئے جائز نہیں ہے کہ کان چھدوائیں اور اس میں زیور پہنیں eمرد وعورت انسانی بالوں کی چوٹی(plait) سَر میں نہیں لگاسکتے، چاہے وہ اُس کے اپنے ہی بال ہوں eالبتہ عورت کو اُون (wool)یا سیاہ دھاگے کی چوٹی(plait) سَر میں لگانے کی اِجازت ہےeعورتیں ہاتھ اور پاؤں میں مہندی لگاسکتی ہیں eمَردوں کو بلکہ چھوٹے بچّوں کو بھی ہاتھ اور پاؤں میں مہندی لگانے کی اِجازت نہیں، چھوٹی بچیوں کو لگائی جاسکتی ہے e جاندار کی تصویر والے لباس ہر گز نہ پہنیں eجانوروں یا انسانوں کی تصویروں والے اسٹیکرز (Stickers)بھی اپنے کپڑوں پر نہ لگائیں اور نہ گھر میں لگائیں eبچّوں کو بھی ایسے کپڑے مت پہنائیں جن پر جانوروں یا انسانوں کی تصویریں ہوں eعورَتیں جائز چیزوں کے ذریعے گھر کی چار دیواری میں اپنے شوہر کے لئے سج سنور سکتی ہیں، لیکن اِس طرح تیار ہوکر کسی نامحرم کے سامنے آنے کی یا بے پردہ باہر گھومنے کی بالکل اجازت نہیں ہے eننگے سر پھرنا سنّت نہیں ہے، اِس لئے اسلامی بھائیوں کو چاہئے کہ پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی سنّت عمامہ شریف کو ضرور سَر پر سجائیں۔ (ماخوذ از سنتیں اور آداب، ص 78۔80)eعورتوں کو کاجل اور کالا سرمہ زینت کے لئے لگانا جائز ہے e دانتوں کو ریتی(a file) سے ریت کر(filing) خوب صورت بنانے والی یا بھوؤں(eyebrows) کے بالوں کو نوچ(plucking)کر بھوؤں کو باریک اور خوب صورت بنانے والی ان سب عورتوں پر حدیث میں لعنت آئی ہےe شریعت میں اجازت ہے کہ اگر اﷲتعالیٰ نے دولت دی ہے تو اچھا لباس اور قیمتی کپڑوں کا استعمال عورتوں اور مردوں دونوں کے لئے جائز ہے بشرط یہ کہ گھمنڈ (pride) کے لئے نہ ہوں بلکہ اللہ پاک کی نعمت کے اظہار کے لئے ہو۔ (جنتی زیور 406تا407ملخصاً) eمرد کو سونے کی انگوٹھی پہننا حرام ہے eمردکے لیے جائز انگوٹھی وہ ہے کہ جوخ چاندی کی ہوخاس میں نگینہ(gem) ہوخ نگینہ(gem) ایک ہی ہوخاُس کی چاندی کا وَزن ساڑھے چار ماشے( یعنی چار گرام 374 ملی گرام) سے کم ہو(اس کے علاوہ نگینے(gem) کا وزن جتنا بھی ہوجائز ہے) خ ایسی انگوٹھی ایک ہی ہو، ایک سے زیادہ بھی جائز نہیں۔eعورَت سونے چاندی کی جتنی چاہے انگوٹھیاں اور چھلّے پہن سکتی ہے ، اِس میں وزن اور نگینے کی تعدادکی کوئی قید نہیں e مرد کے لیے دھات کاکڑا یا دھات کاچھلّایا دھات کی زنجیر (BRACELET-CHAIN) پہننا بھی ناجائز ہے۔(۱۶۳مدنی پھول، ص ۲۹تا۳۲، ملخصا ً)

**********

’گانے سننا ( Listening Songs ) ‘‘

اللہ پاک کا ارشاد:

(ترجمہTranslation:) اور کچھ لوگ کھیل کی باتیں خریدتے ہیں تاکہ بغیر سمجھے اللہ کی راہ سے بہکادیں اور اُنہیں ہنسی مذاق بنالیں۔ اُن کےلئے ذِلّت کا عذاب ہے۔ (ترجمۂ کنز العرفان) (پ21، لقمٰن:6)

عُلَما فرماتے ہیں: (کھیل کی باتوں میں) جھوٹے قصّے، کہانیاں اور افسانے، جادو، ناجائز لطیفے اور گانا بجانا سب داخل ہیں۔ اِس قسم کے آلات (یعنی وہ سامان جن سے یہ کام کئے جاسکتے ہوں اُن کو)بیچنا بھی منع ہے اور خریدنا بھی ناجائز۔ اِسی طرح ناجائز ناول، گندے رِسالے، سینما کے ٹکٹ، تماشے وغیرہ کے اسباب سب کی خرید و فروخت منع ہے۔ مزید لکھاہے: اس آیت کو علمائے کرام نے گانے بجانے کے حرام ہونے کی دلیل کے طور پر بیان کیا ہے۔ (ماخوذ از صراط الجنان، 7/475)

گانے کے متعلق3احادیث:

(1)مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا فرمان ہے: گانا دل میں ایسے مُنافَقت پیدا کرتا ہے جیسے پانی کھیتی اُگاتا ہے۔ (شعب الایمان، الباب الرابع والثلاثون،4/279، حدیث:5100)

(2)اوردوسری حدیث میں فرمایا: جو شخص گانا سننے کے لئے کسی گانے والی کے پاس بیٹھا، اُس کے کانوں میں قیامت کے دن پگھلا ہوا سیسہ(Lead) انڈیلا جائے گا۔ (تاریخ دمشق، محمد بن ابراہیم ابو بکر الصوری، 51/263)

(3)اسی طرح ایک حدیث میں کچھ یوں ارشاد فرمایا: اِس اُمّت میں زمین میں دھنسنا(یعنی گُھسنا)، مَسخ ہونا(یعنی صورت بگڑنا)، اور آسمان سے پتّھر برسنا ہوگا۔ عرض کی گئی: ایسا کب ہوگا؟ فرمایا: جب گانے والیاں اور موسیقی کے آلات ظاہر ہوجائیں گے اور شرابیں (سرِ عام) پی جائیں گی۔

(ترمذی، کتاب الفتن، باب ما جاء فی علامۃ حلول المسخ والخسف، 4/90، حدیث:2219)

گانا سننا کیسا؟:

مزامیر(یعنی موسیقی کے آلات)کے ساتھ گانا اور اُس کا سننا دونوں حرام ہیں(فتاوی رضویہ،٨/١٠٧)

گانا بجانا بلکہ گانے کی آواز رغبت سے سننا دلی نفاق اس طرح پیدا کرتا ہے جیسے پانی کا سیل گھاس کو(مراٰۃ المناجیح،۵/428)

گانے سننے کے نقصانات

پیارے اسلامی بھائیو! c گانے سننا اللہ اور رسول کو ناراض کرنے والا کام ہے c گانے سننے سے رُوح کمزور ہوتی ہے c گانے سننے سے دل سیاہ ہوجاتا ہے c گانے سننا کامل مسلمان بننے میں رُکاوٹ ہے c گانے سننے سے بُری شہوت اور بُرے خیالات دل میں پیدا ہوتے ہیں c گانے سننے سے اِنسان کا ذِہْن بہکتا اور وہ غلط راستوں پر چل پڑتا ہے c گانے سننے سے انسان عشقِ مجازی کا شِکار ہوتا اوربالآخر ناکارہ ہوجاتا ہے c گانے سننے سے ڈپریشن میں اِضافہ ہوتا اور انسان ناامید ہوجاتا ہے c گانے سننے کی وجہ سے انسان کی طبیعت میں جذباتی اور ہیجانی کیفیت پیدا ہوتی ہے جو کبھی کبھی خودکشی بھی کروادیتی ہے c گانے سننے والے کے کان کے پردے بھی متأثّر ہوتے ہیں جبکہ قیامت کے دن اُس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ بھی ڈالا جائے گا c آج کل گانوں میں ایسے کفریہ کلمات بھی ہوتے ہیں جن کو کہنے سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے اور یہ تو سب سے بڑا نقصان ہے۔

گانے سننے کی عادت ہو تو کیسے ختم کی جائے؟

x فوراً تمام سی ڈیز(CD,s)، وی سی ڈیز(VSD,s)، میموری کارڈز(Memory Cards)، کمپیوٹر سسٹم (Computer System)اور دیگر تمام سوشل سائٹس (Social Sites) کے اکاؤنٹس سے گانوں (Songs) اور میوزک (Music)کا ڈیٹا ڈیلیٹ (Delete)کردیجئے x گانوں کے بجائے تلاوت، نعت اور سنّتوں بھرے بیانات سننے کی ترکیب بنائیے، اِس میں دین و دنیا دونوں کا فائدہ ہے x جتنا ہو سکے اللہ پاک کا ذِکْر کیجئے، اجتماعاتِ ذِکْر و نعت میں شرکت کیجئے، دل کا میل دور ہوگا اور رُوحانیت نصیب ہوگی x روزانہ کم ازکم 313 مرتبہ دُرود پڑھنے کا معمول بنالیجئے، گناہ سے بچنے کی طاقت نصیب ہوگی x گانے سننے کا شوق رکھنے والے یار دو ستوں کی سنگت سے فورا دور ہوجائیے اور ذِکْر و نعت کا شوق رکھنے والے عاشقانِ رسول کی صحبت اختیار کیجئے x یہ ذِہْن بنائیے کہ آج اگر کان میں معمولی درد بھی ہوجائے تو جینا حرام ہوجاتا ہے تو خدانخواستہ اگر گانے سننے کی وجہ سے کل بروز قیامت میرے کانوں میں سیسہ انڈیلا گیا تو میرا کیا بنے گا!!! x گانے سننے کے فزیکلی (Physically)نقصانات بھی پیش نظر رکھئے کہ گانے سننا در حقیقت اپنی صحّت سے دشمنی ہے x اپنے ایمان کی فکر کیجئے ، کہ کہیں گانے سننے سے خدانخواستہ ایمان برباد ہوگیا تو دین و دنیا کی ذِلّت و رُسوائی ہمارا مقدّر بن جائے گی۔

نوٹ: گانے سننے کے نقصانات اورر عذابات مزید جاننے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ’’کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب‘‘ اور ’’جہنم میں لے جانے والے اعمال‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔

**********

’’حَسَد‘‘

حَسَد کی تعریف:

کسی کی دینی یا دنیوی نعمت چِھن جانے کی تمنّا کرنایا یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ نعمت نہ ملے۔

(الحدیقۃ الندیہ، الباب الثانی، الخلق الخامس عشر الحسد، المبحث الاول، 3/34ملتقطاً)

اللہ پاک کا ارشاد:

(ترجمہTranslation:) اُنہوں نے اپنی جانوں کا کتنا بُرا سودا کیا کہ اللہ نے جو نازِل فرمایا ہے اُس کا اِنکار کررہے ہیں اُس حَسَد کی وجہ سے کہ اللہ اپنے فضل سے اپنے جس بندے پر چاہتا ہے وحی نازِل فرماتا ہے تو یہ لوگ غَضَب پر غَضَب کے مستحق ہوگئے اور کافِروں کے لئے ذِلَّت کا عذاب ہے۔(ترجمۂ کنز العرفان ) (پ1، البقرۃ:90)

عُلَما فرماتے ہیں: یہودیوں نے حضورِ اَکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے کے بجائے کُفر اختیار کیا اور ایمان کی جگہ کُفر خریدنا خسارے کا سودا ہے۔ اِسی سے ہر آدمی نصیحت حاصل کرے کہ ایمان کی جگہ کُفر، نیکیوں کی جگہ گناہ، اِطاعت کی جگہ نافرمانی، رِضائے اِلٰہی کی جگہ اللہ پاک کے غَضَب کا سودا بہت خسارے کا سودا ہے۔ یہودیوں کی خواہش تھی ’’ختمِ نبوّت‘‘ کا منصب بنی اسرائیل میں سے کسی کو ملتا، لیکن جب اُنہوں نے دیکھا کہ وہ اِس منصب سے محروم رہے اور بنی اسماعیل کو یہ منصب مل گیا تو وہ حَسَد کی وجہ سے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اور اُن پر نازِل ہونے والی اللہ پاک کی کتاب قرآنِ مجید کے منکر ہوگئے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ منصب و مرتبے کی طلب انسان کے دل میں حَسَد پیدا ہونے کا ایک سبب ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ حَسَد ایسا خبیث (بُرا)مرض ہے جو انسان کو کُفر تک بھی لے جاسکتا ہے۔ (ماخوذ از صراط الجنان، 1/163)

یاد رہے کہ حَسَد حرام ہے، البتہ اگر کوئی شخص اپنے مال و دولت یا اثر و وَجاہت سے گمراہی اور بے دینی پھیلاتا ہو تو اُس کے فتنے سے محفوظ رہنے کے لئے اُس کی نعمت کے چِھن جانے کی تمنّا حَسَد میں داخل نہیں اور حرام بھی نہیں۔ (ماخوذ از صراط الجنان، 1/188)

حَسَد کے بارے میں 2 احادیث:

(1)آخِری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: حَسَد سے دور رہو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھاجاتا ہے جس طرح آگ خشک لکڑیوں یا گھاس کو کھاجاتی ہے۔ (ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الحسد، 4/361، حدیث:4903)

(2)ایک مرتبہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: حسد ایمان کو اس طرح تباہ کردیتا ہے جیسے ایلوا (ایک کڑوے درخت کا جما ہوا رس) شہد کو خراب کردیتا ہے۔ (جامع صغیر، حرف الحاء، ص 232، حدیث:3819)

حَسَد کی چند مثالیں:

e کسی کو مالی طور پر خوشحال دیکھ کر تمنّا کرنا کہ اس کے ہاں چوری یا eڈکیتی ہوجائے یا eاِس کی دُکان و مکان میں آگ لگ جائے اور eیہ کوڑی کوڑی کا محتاج ہوجائے eکسی کو دین یا دنیا کے اعلیٰ منصب و مرتبے پر فائز دیکھ کر جلنا اور تمنّا کرنا کہ اِس سے کوئی غلطی ہوجائے اور یہ مرتبہ اِس سے چِھن جائے eیہ خواہش رکھنا کہ فلاں خوشحال شخص تنگ دست ہوجائے e اورکبھی خوشحالی واپس نہ آئے eفلاں عزّت دار کی عزّت خراب ہوجائےe اور وہ ہمیشہ ذلیل و خوار ہو۔

حسدکی ایک نشانی:

حضرت سیدناابن سماک رَحْمَةُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: حاسد کی نشانی یہ ہے کہ وہ لالچ کی وجہ سے تیرے قریب ہوتاہے اور اس کی بداخلاقی اسے تجھ سے دور کرتی ہے۔

(تنبیہ المغترین، الباب الثالث، ومن اخلاقھم عدم الحسد لاحد من المسلمین، ص۱۸۹)

حاسد کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو دشمن کو مارنے کے لیے پتھر پھینکے لیکن وہ دشمن کو لگنے کے بجائے پلٹ کر پھینکنے والے شخص کی سیدھی آنکھ پر لگے اور وہ پھوٹ جائے تو اسے اور زیادہ غصہ آئے تو دوسری بار اور زور سے پتھر پھینکے لیکن اس بار بھی دشمن کو لگنے کے بجائے پلٹ کر اسی کو لگے اور دوسری آنکھ بھی پھوٹ جائے، تیسری بار پھر پھینکے تواس کا اپناسرپھٹ جائے اور اس کا دشمن سلامت رہے، اس کے دوسرے دشمن اس کے حال کو دیکھ کر اس پر ہنسیں، حاسد کا بھی یہی حال ہے شیطان اس سے اسی طرح مذاق کرتا ہے۔ (کیمیائے سعادت،پیداکردن علاج حسد،۲/۶۱۴)

حسد حرام ہے:

”تفسیر صِراطُ الجِنان“ جلد اوّل صفحہ164 پرہے: حسد حرام(اور گناہ) ہے اور اس باطنی مرض کے بارے میں علم حاصل کرنا فرض ہے ۔

آدمی حسد کیوں کرتا ہے؟

(۱)احساسِ کمتری(۲)قناعت نہ ہونا(۳)خواہشات کی کثرت(۴)بغض (۵)غصّہ۔

حسد اور کینہ غضب کے نتائج ہیں، اس کی وضاحت یہ ہے کہ جب انسان کو غصہ آئے اور وہ اسے نافذ کرنے پر قدرت نہ ہونے کی وجہ سے پی لے تو وہ غصہ اندر کی طرف لوٹ جاتا ہے پھر وہ کینہ اور حسد بن جاتا ہے۔(الزواجر،الباب الاول،الکبیرة الثالثة ، ۱/۱۲۴)

حسد سے بچنے کے چند علاج:

a اللہ پاک کی بارگاہ میں سچّی توبہ کیجئے اور دعا کیجئے کہ دل ہمیشہ حسد سے پاک رہے a اللہ پاک نے جتنا عطا کیا اُسی پر راضی رہئے اور اُس کا شکر ادا کیجئے a حسد کے نقصانات کو ہر دم پیش نظر رکھئے، کیونکہ کوئی بھی عقلمند شخص اُس کام میں ہاتھ نہیں ڈالتا جس میں نقصان ہو a یہ بات ذِہْن میں رکھئے کہ دنیا فانی ہے، ہمیشہ نہیں رہے گی، اِس لئے دنیا کی چیزوں پر حسد کرنا فضول ہے a کسی کی دینی عزّت و شہرت دیکھ کر اُسے بَرَکت کی دعا دیجئے کہ اسے یہ عزت اللہ پاک نے عطا کی ہے aجن کو ہم سے زیادہ نعمتیں ملی ہیں،اُن کو دیکھنے کے بجائے، اُن لوگوں کو دیکھئے جنہیں ہم سے کم نعمتیں ملی ہیں a حسد کے بجائے رشک کیجئے، کہ یا اللہ! تو نے اِسے نوازا ہے، اِسے مزید بَرَکت عطا فرما اور مجھے بھی نواز دے a اگر حسد کی وجہ کسی سے نفرت ہے تو نفرت کی وجہ ختم کیجئے اور مسلمان کی محبّت دل میں پیدا کیجئے a دوسروں کی خوشی میں خوش رہنے کی عادت بنائیے کہ یہ بھی اتّفاق و اتّحاد کا ذریعہ بنتا اور حسد کا خاتمہ کرتا ہے a جب بھی دل میں کسی سے حَسَد ہو تو ’’اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم‘‘ اور ’’لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَظِیْم‘‘ پڑھ کر اِس شیطانی خیال کو دورکیجئے aحضرتِ سیِّدنا ابوالدَّرداءرَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے فرمایا: جو موت کو کثرت کے ساتھ یاد کرے اس کے حَسَد اور خوشی میں کمی آجائے گی۔ (مصَنَّف ابن اَبی شَیبہ، کتاب الزھد ، کلام ابی درداء، ۸/۱۶۷، حدیث: ۴)

نوٹ: حسدکے بارے میں مزید جاننے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب’’حَسَد‘‘ کا مُطالَعہ مفید رہے گا۔

**********

’’ایثار‘‘

ایثار کی تعریف:

فائدہ حاصل کرنے یا نقصان سے بچنے میں اپنے آپ پر کسی اور کو فوقیت دینا ایثار کہلاتا ہے۔(کتاب التعریفات، باب الالف، ص31) شیخِ طریقت، امیرِ اَہلِ سنّت دامت برکاتہم العالیہ اپنے رسالے ’’مدینے کی مچھلی‘‘ کے صفحہ 3 پر فرماتے ہیں: ایثار کا معنی ہے: دوسروں کی خواہش اور حاجت کو اپنی خواہش و حاجت پر ترجیح دینا۔

ایثار کے بارے میں قرآن کی آیت:

(ترجمہTranslation:) اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود حاجت ہو اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچالیا گیا تو وہی لوگ کامیاب ہیں۔ (ترجمۂ کنز العرفان ) (پ28، الحشر:9)

عُلَما فرماتے ہیں: اِس آیت میں انصاری صحابہ کرام کی انتہائی مدح و ثنا (یعنی بہت زیادہ تعریف) کی گئی ہے، ان کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی طرف ہجرت کرنے والوں سے محبت کرتے ہیں (اور اس کا عملی ثبوت دیتے ہوئے) اپنے گھروں میں انہیں ٹھہراتے اور اپنے مالوں میں نصف (یعنی آدھے) کا انہیں شریک کرتے ہیں اور وہ اپنے دلوں میں اس مالک کے بارے میں کوئی خواہش اور طلب نہیں پاتے جو ان مہاجرین کو دیا گیا اور وہ اپنے اموال اور گھر ایثار کرکے مہاجرین کو اپنی جانوں پر ترجیح(یعنی فوقیت) دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود مال کی حاجت ہو اور جس کے نفس کو لالچ سے پاک کیا گیا تو وہی کامیاب ہیں۔ (ماخوذ از صراط الجنان، 10/74)

ایثار کے بارے میں حدیث :

ہم غریبوں کو سہارا دینے والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی چیز کی خواہش رکھتا ہو پھر وہ اپنی خواہش چھوڑ دے اور دوسرے کو اپنے اوپر ترجیح دے تو اللہ پاک اُس کی بخشش فرمادے گا۔

(تاریخ دمشق، 31/142)

ایثار کی عادت بنانے کے لئے چند مدنی پھول:

k یہ بات پیشِ نَظَر رکھئے کہ ایثار کرنا بخشش و مغفرت کا سبب ہے، اگر کسی اور کو اپنے اوپر فوقیت دے کر بخشش ملتی ہے تو یقیناً یہ فائدہ مند سودا ہے k کامل مسلمان بننے کا جذبہ ہر دم بیدار رکھئے کہ کامل مسلمان وہ ہوتا ہے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی دوسرے کےلئے پسند کرتا ہے k یوں ذِہْن بنائیے کہ میں اگر اپنی پسندیدہ چیز دوسرےکو دوں گا تو یہ بھلائی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہوگا اور قرآن نےبھی یہی تعلیم دی ہے k اِس طرح بھی سوچئے کہ ایثار در حقیقت ایک انویسٹمنٹ (Investment)ہے جس کا فائدہ مجھے آخرت میں کئی گنا بڑھا کر دیاجائے گا، تو آج موقع ہے، اِس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہئے k پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اور بُزرگوں کی سیرت کا مطالعہ کیجئے، اِنْ شَاء اللہ ایثار کا جذبہ پیدا ہوگا k اگر نفس و شیطان ایثار کرنے سے روکیں تو فوراً ایثار کر دیجئے اور نفس و شیطان کا توڑ کیجئے k بخیل اور کنجوس لوگوں کی صحبت چھوڑ کر ایثار اور سخاوت کرنے والے عاشقانِ رسول کی صحبت میں بیٹھئے، اِنْ شَاء اللہ فائدہ ہوگا۔

نوٹ: ایثار کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے مکتبۃ المدینہ کے رسالے’’مدینے کی مچھلی‘‘ کامطالعہ مفید رہے گا۔

**********

اللہ پاک کے احسان

پیارے اِسلامی بھائیو! ہو سکتا ہے کہ آپ نے کبھی یہ جملہ سنا ہو کہ ’’پانی زندگی ہے‘‘۔ تو آئیے! آج آپ کو اِس کا مطلب سمجھاتا ہوں۔

r دنیا میں عموماً جن چیزوں کی ہمیں سب سے زیادہ ضرورت پڑتی ہے اُن میں ’’پانی‘‘ بھی ہے rاِنسان تو انسان، جانوروں(Animals)، پرندوں(Birds)، کیڑے مکوڑوں(Insects) اور درختوں (Trees)کو بھی پانی کی بہت ضرورت ہوتی ہے rہر انسانی جسم کا 60 فیصد سے زیادہ حصّہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے اور دنیا میں اِس وقت 7 ارب 70 کروڑ (7.7 Billion)سے زیادہ لوگ رہتے ہیں، جس سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ صرف انسانوں کو جتنا پانی درکار ہے وہی اربوں گیلن بن جاتا ہے rپھر اِتنا ہی نہیں! ایک تحقیق کے مطابق جانوروں کی تعداد اِنسانوں کے مقابلے میں 10 گُنا (10 Times) زیادہ جبکہ پرندوں کی تعداد 100 گنا (100 Times) زیادہ ہوتی ہے، اِس حساب سے دیکھا جائے تو پانی کی ضرورت مزید کئی گنا بڑھ جاتی ہے rپھر یہ کہ پانی فقط انسانوں، جانوروں، پرندوں یا درختوں ہی کی ضرورت نہیں، دنیا کے بے شمار کاموں میں پانی کا بہت بڑا عمل دخل ہوتا ہے اور پانی نہ ہو تو دنیا کے زیادہ تر کام ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا rاب دلچسپ بات یہ ہے کہ اِس قدر پانی جس کا ہم اندازہ بھی نہیں لگاسکتے وہ روزانہ کی بنیاد پر دنیا والوں کو درکار ہوتا ہے، لیکن پوری دنیا کو پانی صرف ایک ہی ذریعے سے ملتا ہے اور وہ ذریعہ’’بارِش‘‘ (Rain)ہے rکیونکہ دنیا کا تقریباً 67 فیصد حصّہ سمندر (Ocean)پر تو مشتمل ہے لیکن یہ پانی ہم پی نہیں سکتے اور اپنی بہت سی ضرورتوں میں استعمال نہیں کرسکتے۔ اس لئے اللہ پاک نے پانی کی کمی پوری کرنے کے لئے بارِش کا نظام عطا فرمایا کہ rسب سے پہلے سمندر سے پانی کے بُخارات (Evaporation)اُٹھتے ہیں جو بادَل کی شکل اختیار کرتے ہیں اور لاکھوں ٹن پانی سے بھرے یہ بادَل آسمان کی طرف چلے جاتے ہیں r خدا کی قدرت دیکھئے کہ نہ کوئی پائپ لائن (Pipe Line)ہے اور نہ ہی کوئی موٹر(Motor)، لیکن اتنا زیادہ پانی بادَل زمین سے آسمان کی طرف لے جاتے ہیں اور ہمارے سروں پر گویا ایک ٹینک (Tank) کی صورت میں پانی اسٹور(Store) کرلیتے ہیں r اِتنا ہی نہیں! سمندر سے جو پانی اوپر گیا وہ تو پینے کے قابل نہیں تھا لیکن اوپر جانے کے بعد وہی پانی بغیر کسی مشین (Machine)کی مدد کےنہ صرف میٹھا بلکہ بَرَکت والا اور صاف و پاکیزہ پانی (Purified Water) بن جاتا ہے۔

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: (ترجمہ Translation :)اور ہم نے آسمان سے برکت والا پانی اتارا تو اس سے باغ اور کاٹا جانے والا اناج اگایا۔ اور کھجور کے لمبے درخت (اگائے) جن کے گچھے اوپر نیچے تہہ لگے ہوئے ہیں۔ بندوں کی روزی کے لئے اور ہم نے اس سے مردہ شہر کو زندہ کیا۔ یونہی (قبروں سے تمہارا) نکلنا ہوگا۔

(ترجمۂ کنز العرفان ) (پ26، قٓ:9)

r اب اگر ایسا ہوتا کہ بادل پانی بھر کر اُٹھتے اور اوپر جاکر بَرَس جاتے تو جن لوگوں کے قریب سمندر ہے اُنہیں تو پانی مل جاتا لیکن جو لوگ سمندر سے دور ہیں یا دنیا کے تقریبا 49ممالک جن میں سمندر ہی نہیں ہے (Land lock Countries) اُنہیں پانی نہیں مل پاتااِس لئے اللہ پاک نے ہوا کا نظام عطا کیا جو بادَلوں کا اُڑا کر وہاں بھی لے جاتی ہے جہاں سمندر نہیں ہوتا اور یوں سب کی ضرورت کا پانی اُن تک پہنچ جاتا ہے rیہاں ایک اور غور طلب بات یہ بھی ہے کہ جتنا پانی ہمیں استعمال کرنا ہوتا ہے ہم کرلیتے ہیں، باقی اتنا سارا پانی کہاں جاتا ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ وہ سارا پانی اللہ پاک کے حکم سے زمین چوس لیتی ہے جسے ہم بعد میں ضرورت پڑنے پر بورِنگ کرکے یاکنواں کھود کر نکال لیتے ہیں اور rربّ کی شان کہ آسمان سے جیسا صاف اور پاک پانی اُترا تھا ویسا ہی زمین میں اسٹور ہونے کے بعد نکل آتا ہے rپھر یہ کہ جب بہت گرمی پڑتی ہے، زمین بھی سوکھ جاتی ہے، پانی بھی ختم ہوجاتا ہے اور بارِش بھی نہیں ہوتی۔ تو اِس صورت حال میں پانی کی کمی پوری کرنے کے لئے کیا ذریعہ ہو ؟ تو اللہ پاک اس کا انتظام سردیوں میں ہی فرمادیتا ہے کہ پہاڑوں پر ہونے والی بارِش برف (Ice) بن جاتی ہے اور پہاڑ گلیشئر (Glacier) کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ پھر جب گرمیوں میں ضرورت پڑتی ہے تو یہی بَرَف پگھلتی، پانی بن کر بہتی اور لوگوں کی ضرورت میں کام آتی ہے rآخری بات یہ کہ دنیا کو بنے ہزاروں سال ہوگئے لیکن پانی ہمیشہ سے ہمیں مفت (Free of Cost) ہی مل رہا ہے اور اس میں کبھی کمی بھی نہیں ہوئی اور جب تک دنیا ہے پانی یوں ہی مفت ملتا رہے گا اور اس میں کبھی کمی بھی نہیں آئے گی۔

یقیناً اللہ پاک نے سچ فرمایا ہے: (ترجمہTranslation:) تو (اے جن و انسان!) تم دونوں اپنے ربّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟۔ (ترجمۂ کنز العرفان ) (پ27، الرحمٰن:13)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب

صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

میرے نبی صلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی شان

اللہ پاک کے محبوب نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَکودودھ پلانے والی دائی حضرتِ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: مدنی آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو لے کر جب میں اپنے مکان میں داخل ہوئی تو قبیلہ ’’بَنُو سَعْد‘‘ کے گھروں میں سے کوئی گھر ایسا نہ رہا جس سے ہمیں مشک (Musk) کی خوشبو نہ آتی ہو۔ قبیلے کے لوگوں کے دلوں میں آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی محبّت بیٹھ گئی تھی اور اُن لوگوں کو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے برکت والا ہونے کا اتنا یقین ہوچکا تھا کہ اگر کسی کے بَدَن میں کہیں درْد یا تکلیف ہوجاتی تو وہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا مُبارَک ہاتھ لے کر تکلیف کی جگہ پر رکھتا تو اللہ پاک کے حکم سے اُسی وقت ٹھیک ہوجاتا تھا، اگر اُن کا کوئی اونٹ(Camel) یا بکری (Goat)بیمار ہوجاتی تو اُس پر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا برکت والا ہاتھ پھیرتے تو وہ تندرست ہوجاتی تھی۔

(السیرۃ الحلبیۃ، باب ذکر رضاعہﷺ وما اتصل بہ،1/135)

پیارے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے! پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا ہاتھ بلکہ آپ کی پوری ذات کس قدر بَرَکت والی ہے کہ جس پر ہاتھ رکھ دیں اُس کا درْد، تکلیف، دُکھ، رنج اور غم سب دور ہوجائیں اور جہاں موجود ہوں وہاں کا چَپّہ چَپّہ مہکادیں۔

اُن کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دئیے ہیں

جس راہ چل گئے ہیں کوچے بسادئیے ہیں

جب آگئی ہیں جوشِ رَحمت پہ اُن کی آنکھیں

جلتے بجھا دئیے ہیں روتے ہنسا دئیے ہیں

اُن کے نِثار کوئی کیسے ہی رَنْج میں ہو

جب یاد آگئے ہیں سب غم بھلادئیے ہیں

میرے کریم سے گر قطرہ کسی نے مانگا

دریا بہادئیے ہیں دُر بے بہا دئیے ہیں

(حدائق بخشش، ص101۔102)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب

صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

’’ایمان ‘‘

z ’’اِیمان‘‘ سے مراد یہ ہے کہ سچےّ دل سے اُن تمام باتوں کی تصدیق کرے جو ’’ضروریاتِ دین‘‘ ہیں z’’ضروریاتِ دین‘‘ سے مراد دین کے وہ مسائل ہیں جن کو ہر خاص و عام شخص ( [1] ) جانتا ہو۔ جیسے: اللہ پاک کا ایک ہونا نبیوں کا نبی ہونا پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا آخِری نبی ہونا جنّت و دوزخ کا ہونا قیامت اور حساب و کتاب کا ہونا وغیرہ z دور دراز کے علاقوں یا جنگلوں اور پہاڑوں میں رہنے والے وہ لوگ جن کو کلمہ بھی صحیح سے نہ آتا ہو اور نہ ہی وہ ضروریاتِ دین سے واقف ہوں اُن کے مسلمان ہونے کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ وہ ضروریاتِ دین میں کسی بھی چیز کا انکار نہ کرتے ہوں اور یہ عقیدہ رکھتے ہوں کہ اِسلام میں جو کچھ ہے سب حق ہے z مسلمان ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ زبان سے کسی ایک بھی ایسی چیز کا انکار نہ کرے جو ضروریاتِ دین سے تعلّق رکھتی ہو z مسلمان کو مسلمان یا کافر کو کافر جاننا ضروریاتِ دین میں سے ہے z کبیرہ یعنی بڑے گناہ کرنے والا مسلمان ہی رہتا ہے اور جنّت میں بھی جائے گا۔ چاہے اللہ پاک اپنے فضل سے اُسے بخش دے اور جنّت میں داخل کردے یا پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی شفاعت سے اسے جنّت مل جائے یا اپنے بُرے اعمال کی سزا پانے کے بعد جنّت میں جانا نصیب ہو۔البتہ گناہ گار مسلمانوں کی ایک تعداد شروع میں جہنّم میں ضرور جائے گی(ہم اللہ پاک سے بلاحساب جنّت میں داخلے کی دعا کرتے ہیں)۔

’’کُفر ‘‘

z ’’کفر‘‘ سے مراد یہ ہے کہ ’’ضروریاتِ دین‘‘ میں سے کسی ایک کا یا سبھی کا انکار کرےz وہ کام جو واضح طور پر ایمان کے خلاف ہوں اُن کو کرنے سے بندہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا اور اُس پر لازِم ہوگا کہ سچّی توبہ کرکے دوبارہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو۔ چند کام یہ ہیں۔ جیسے: بُت یا چاند یا سورج کو سجدہ کرنا کسی بھی نبی کی توہین کرنا قرآن کریم یا کعبہ شریف کی توہین کرنا کسی سنّت کو ہلکا (یعنی گھٹیا)بتانا زُنّار(وہ دھاگہ یا ڈوری جو mazhab گلے سے بغل کے نیچے تک ڈالتے ہیں اور عیسائی، مجوسی اور یہودی کمر پر باندھتے ہیں) باندھنا قَشْقہ (پیشانی پر صندل یا زعفران کے 2 نشانات، ٹیکا، تلک جو mazhab ماتھے پر لگاتے ہیں)لگانا سر پر چوٹیا (وہ چند بال جو بچّے کے سر پر منّت مان کر mazhab رکھتے ہیں) رکھنا صلیب لٹکانا وغیرہ z زبان سے مسلمان ہونے کا دعوی کرنا اور دل میں اِسلام کا انکار کرنا جسے نِفاق بھی کہتے ہیں بالکل کفر ہے z جس شخص نے خالص کفر والا کام کیا ہو اور یقینی طور پر کافِر ہو (جیسے:کسی نبی کی توہین کی ہو، ختمِ نبوّت کا انکار کیا ہو، صلیب لٹکائی ہو، بُت کو سجدہ کیا ہو، قرآنِ کریم کی گستاخی کی ہو) اُس کے کافر ہونے میں شک کرنا بھی آدمی کو کافر بنادیتا ہے۔

نوٹ: ایمان اور کفر کے درمیان کوئی چیز نہیں، یعنی آدَمی مسلمان ہوگا یا کافر، تیسری کوئی صورت نہیں ہوسکتی کہ نہ مسلمان ہو اور نہ ہی کافر۔

’’شِرْک‘‘

z ’’شِرْک‘‘ کا مطلب ہے: اللہ پاک کے علاوہ کسی اور کو عبادت کے لائق سمجھنا یا اللہ پاک کے علاوہ کسی اور کے وُجود کو ہمیشہ سے ہمیشہ لازِم سمجھنا اور اُس کے موجود نہ ہونے کو ناممکن سمجھنا۔ یعنی خدا ہونے میں کسی کو شریک کرنا شِرْک کہلاتا ہے۔یہ سب سے بُرا کفر ہے۔(شِرک کی مثالیں: بُتوں کو خدا،یا چھوٹا خدا، یا خدا کا مددگارسمجھنا/رُوح کو ہمیشہ سے ہمیشہ زندہ رہنے والی سمجھنا (جیسا کہ ’’آریہ‘‘ مذہب والوں کا عقیدہ ہے)/ اللہ پاک کے علاوہ کسی اور کو خدا سمجھ کر سجدہ کرنا وغیرہ۔عُلَما نے فرمایا: اللہ پاک کی کوئی صفت جیسے: علم، قدرت وغیرہ (یعنی جیسا علم اللہ کو ہے، ایسا) کسی دوسرے کے لئے ماننا بھی شِرْک ہے ۔ مثال کے طور پر یوں کہنا کہ ’’انبیائے کِرام یا اولیائے کِرام کو ذاتی طور پر ہماری ہر بات کا ایسے ہی علم ہوتا ہے جیسے اللہ پاک کو ہے‘‘ یا ’’نبی اور ولی ذاتی طور پر ہماری ویسی ہی مدد کرتے ہیں جیسی اللہ پاک کرتا ہے‘‘وغیرہ۔

’’ذاتی‘‘ اور ’’عطائی‘‘ کا فرق

یہ بات یاد رہے! اللہ پاک کے نبیوں اور ولیوں کے علم، قدرت، اِختیار اور کمالات وغیرہ کی باتیں شِرْک نہیں ہیں بلکہ خالص اسلام ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ نہ ہی خدا ہیں اور نہ ہی عبادت کے لائق ہیں، اِن کے پاس جتنی بھی صفات یا خوبیاں ہیں وہ اِن کی اپنی نہیں ہیں بلکہ اللہ پاک کی طرف سے دی گئی ہیں۔ جبکہ شرک وہاں ہوتا ہے جہاں کسی کا علم، اختیار اور کمال اُس کا اپنا اور ذاتی مانا جائے اور اللہ پاک کی طرف سے ملنے کا انکار کیا جائے۔ یہ بھی ذِہْن نشین رہے کہ اللہ پاک اپنے بندوں کو علم، قدرت، اختیارات، کمالات اور عقل کو حیران کردینے والے معجزات و کرامات عطا فرما تا ہے، اس میں اس کی بہت سی حکمتیں ہوتی ہیں، لیکن یہ چیزیں ملنے کے بعد کوئی بھی خدایا عبادت کے لائق نہیں بن جاتا۔ مسلمان اللہ پاک کے علاوہ کسی اور کو خدا، عبادت کے لائق یا اللہ پاک کے دئیے بغیر علم، قدرت، اختیار اور کمال رکھنے والا نہیں سمجھتے۔ (ماخوذ از الحق المبین، ص 41 تا 43)

نوٹ: اللہ پاک چاہے گا تو جیسا بھی گنہگار شخص ہو اُسے بخش دے گا، لیکن کسی کافر اور مشرک کی کبھی مغفرت نہیں فرمائے گا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اُن کا ٹھکانہ جہنّم ہوگا، کیونکہ اللہ پاک نے اپنا یہ ارادہ ظاہر کردیا ہے کہ جو کفر پر مرا وہ کبھی بھی جنّت میں نہ جائے گا، ہمیشہ جہنّم میں رہے گا۔ وہ سچّا مالِک ہے، اُس کی باتوں میں تبدیلی نہیں آتی اور وہ ظلم سے پاک ہے۔ وہ انعام و فضل اور اِحسان و کَرَم کرنے والا مولیٰ ہے اور جو اس ربّ کا باغی ہے، اُس کی یہی سزا ہونی چاہئے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنّم میں رہے۔

’’اِکراہِ شرعی‘‘

z اگر کوئی یہ دھمکی دے کہ ’’کلمۂ کفر بکو! ورنہ تمہیں جان سے ماردوں گا یا تمہارے جسم کا کوئی حصّہ کاٹ دوں گا‘‘ تو اِس صورت میں اگر یہ یقین ہے کہ جو یہ دھمکی دے رہا ہے وہ کر گزرے گا تو کلمۂ کفر بکنے کی اجازت ہے، لیکن اِس صورت میں بھی لازم یہی ہے کہ دل ایمان پر ویسے ہی مضبوط رہے جیسے پہلے مضبوط تھا۔ یعنی دل میں یہ بات ہو کہ مجبوراً زبان سے کلمۂ کفر کہہ رہا ہوں مگرہوں پکّا مسلمان۔

’’حلال و حرام‘‘

z جس چیز کا حلال ہونا بہت مضبوط دلیل سے ثابت ہو اُسے حرام کہنا یا جو چیز یقینی طور پر حرام ہو اُسے حلال کہنا کفر ہے۔ (ماخوذ از بہار شریعت، 1/172 تا185)

نوٹ: جو بالکل صاف صاف کفر کہے، اُس کا اِسلام ختم ہوجاتا ہے۔ یادرہے: کسی کے کافر ہونے کا فیصلہ ہم نہیں کرسکتے، یہ علمائے کِرام کا کام ہے۔ کسی نے اسلام کے خلاف کوئی بات بولی تو ’’دارالافتاء اہلسنّت‘‘ سے پوچھ لیجئے۔

**********