تبلیغِِ اسلام

بسم اللہ والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ

 تبلیغِِ اسلام

تبلیغ کی اہمیت:

دین کی تبلیغ بہت عمدہ اور افضل کام ہے ، تمام انبیاء اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھیجنے کا مقصد بھی یہی تھا ۔

اللہ پاک کا فرمان:

(ترجمہTranslation:)اوربیشک ہم نے موسی کواپنی نشانیاں دےکر بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے اجالے میں لاؤ اور انہیں اللہ کے دن یاد دلاؤ۔(ترجمۂ کنز العرفان) (پ۱۳،ابراھیم:۵)

اس آیت کے تحت  تفسیرِ صراط الجنان میں ہے۔اس سے بتانا مقصود ہے کہ تمام انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بعثت(بھیجنے) کا مقصد ایک ہی ہے کہ  وہ اللہ تعالی کی مخلوق کو کفر کے اندھیروں سے   نکال کر ہدایت اور ایمان کی روشنی کی طرف لانے کی کوشش کریں ۔(صراط الجنا ن ،ج،۵،ص،۱۵۰)

اللہ پاک کا ارشاد:

ترجمہ(Translation): اور اس سے زیادہ کس کی بات اچھی جو اللہ کی طرف بلائے اور نیکی کرے۔(ترجمۂ  کنز العرفان) (پ24، حم السجدۃ:  33)

 (ترجمہTranslation:)تم فرماؤ یہ میرا راستہ ہے میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں ۔میں اور میری پیروی کرنے والے کامل بصیرت(یعنی یقین اور معرفت کے اعلیٰ درجہ) پر ہیں  اور اللہ ہر عیب سے پاک ہے اور میں شرک کرنے والا نہیں ہوں ۔(ترجمۂ کنز العرفان)  (پ۱۳، یوسف: ۱۰۸)

یعنی اے حبیب صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! آپ اِن مشرکین سے فرما دیں کہ  اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور دینِ اسلام کی دعوت دینا یہ میرا راستہ ہے ، میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی توحید اور اس پر ایمان لانے کی طرف بلاتا ہوں۔ میں اور میری پیروی کرنے والے کامل یقین اور معرفت پر ہیں ۔(تفسیر صراط الجنان،5/67)

(ترجمہTranslation:) اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بری بات سے منع کریں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔(ترجمہ کنز العرفان ) (پ۴ ،اٰلِ عمران : ۱۰۴)

(ترجمہTranslation:)اور اپنے رب کی طرف بلاؤ۔(ترجمۂ کنز العرفان)(پ20،القصص:87)

مطلب یہ ہے کہ اپنے رب کے دین کی طرف بلاؤ۔اس سے مراد یہ ہے کہ غیر مسلموں کو بھر پور طریقے سے اسلام کی دعوت دو۔ (تفسیر کبیر،پ20،القصص،تحت الآیۃ:87،9/20، ملخصاً)

تبلیغ بڑی اَ ہَم عبادت ہے اس لئے کہ تمام عبادتوں کا فائدہ خود اپنی ذات کوہوتا ہے مگر لوگوں تک اسلام اور اس کی تعلیمات پہنچانا ایسا کام ہے جس کا فائدہ دوسروں کو بھی ہوتا ہے۔ 

رسولِ پاک صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کا فرمان:

میری طرف سے پہنچا دو اگر چِہ ایک ہی آیت ہو۔ (بخاری،  ۲ /۴۶۲، حدیث: ۳۴۶۱)

تبلیغِ دین کا حکم  اور اس کی صورتیں:

تفسیر صراط الجنان جلد۲ صفحہ ۲۵ پر ہے: مجموعی طور پر تبلیغِ دین فرضِ کفایہ ہے۔ اس کی بہت سی صورتیں ہیں جیسے تصنیف کرکے،  تقریر کرکےاور  بیان کرکے لوگوں کو نیکی کی دعوت دینا وغیرہ، یہ سب کام تبلیغِ دین کے زمرے میں آتے ہیں اور بقدرِ اخلاص ہر ایک کو اس کی فضیلت ملتی ہے۔ 

تبلیغ کا طریقہ:

اللّٰہ پاک کا ارشاد:

(ترجمہTranslation:) اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاؤ اور ان سے اس طریقے سے بحث کرو جو سب سے اچھا ہو۔(ترجمۂ کنز العرفان) (پ۱۴،النحل: ۱۲۵)

 اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تین طریقوں سے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کا حکم فرمایا۔

 ) حکمت کے ساتھ۔ اس سے وہ مضبوط دلیل مراد ہے جو حق کو واضح اورشُبہات (یعنی شکوک اوروہموں)  کو زائل کردے۔ 

) اچھی نصیحت کے ساتھ۔ اس سے مراد ترغیب و ترہیب ہے یعنی کسی(اچھے) کام کو کرنے کی ترغیب دینا اور کوئی(بُرا) کام کرنے سے ڈرانا ۔

(3) سب سے اچھے طریقے سے بحث کرنے کے ساتھ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف اس کی آیات اور دلائل سے بلائیں۔(صراط الجنان ،ج۵،ص۴۰۳)

خیال رہے کہ یہاں بحث سے مراد دلائل کے ساتھ اللّٰہ پاک کی طرف بلانا ہے نہ کہ جھگڑے کرنا،البتہ اگر کسی کو اسلام کی دعوت دیں اور ایسا موقع آجائے تو خود کسی بحث وتکرار میں الجھنے کے بجائے اسے کسی ماہر عالمِ دین کے پاس  لے جائیے یا جانے کامشورہ دے دیجئے۔

تبلیغ کرنے کے فضائل:

ترجمہ(Translation): (اے مسلمانو!) تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی ہدایت) کے لئے ظاہر کی گئی،تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللّٰہ پر ایمان رکھتے ہو۔ (ترجمۂ کنز العرفان) (پ4، آل عمران: 110)

یعنی اے مسلمانو!تمہیں اس لئے پیدا کیا گیا تاکہ کل قیامت میں انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے حق میں گواہی دو یا اس لئے کہ تم لوگوں یعنی کافروں میں تبلیغ کرو۔اے مسلمانو!تم ساری گزشتہ امتوں سے بہتر ہو تمہیں لوگوں کے بھلے کے لئے پیدا کیا گیا کہ تم ہی قیامت میں انبیائے کرام کے حق میں گواہی دو گے اور گواہ دعویٰ کرنے والے  کو بہت پیارا ہوتا ہے تو تم سارے نبیوں کے پیارے ہو تمہارے ذریعےلوگوں میں تبلیغ ہوگی اور کافر مسلمان ہوں گے تمہاری شان یہ ہونی چاہئے کہ تم میں سے ہر شخص  اپنی طاقت کے مطابق دنیا والوں کو بھلائی سکھائے ،بتائے اور کرائے اور برائیوں سے بچائے،ہٹائے،تم اللہ پر بھروسہ و ایمان رکھو کہ اگر تبلیغ کے راستے میں تکلیفیں بھی ہوں تو برداشت کرو۔(تفسیر نعیمی،4/89،90، ملتقطاً وملخصاً)

مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ ، مولائے کائنات،علیُّ المُرتَضٰی شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ وَجْھَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں کہ تبلیغ ِ دین بہترین جِہاد ہے۔  (تفسیرِ کبیر، ۳/۳۱۶)

غیر مسلموں کو اسلام کی طرف کون بلاسکتا ہے؟

موجودہ دور میں  اسلامی دنیا کے بہت بڑے مبلغ اور تبلیغِ دین کی عظیم تحریک دعوتِ اسلامی کے بانی شیخ طریقت امیرِ اہلسنّت ابوبلال حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ سے اس بارے میں پوچھے گئے سوال اورآپ کے  جواب کا خلاصہ مع اضافہ پیش خدمت ہے:

عرض کُفَّارکواسلام کی طرف راغب کرنے اور انہیں نیکی کی دعوت دینے کے لیے مبلِّغ میں کون کون سی خوبیاں ہونا ضروری ہے اس بارے میں کچھ مدنی پھول ارشاد فرمادیجئے۔ 

ارشاد:  کُفَّارکواسلام کی طرف راغب کرنے اور انہیں اچھے انداز سے نیکی کی دعوت دینے کےلیے مُبَلِّغین کے  10مدنی پھول ملاحظہ کیجیے:

اِیمانِ مُحکم و یقینِ کامِل:

دینِ اسلام پرخود اس کا ایمان اتنا پختہ اوریقین ایسا مضبوط ہو کہ اس میں ذرّہ برابر بھی شک وشبہ کی گنجائش نہ ہو۔ دنیاکا کوئی مال ودولت، زَیب وزینت،حرص و طمع(یعنی لالچ)،زورزبردستی راہِ حق سے اسے دُورنہ کر سکے۔

علمِ دین:

      اِسلام کے بارے میں  اِس قَدَر علم رکھتاہوکہ دوسروں کو اس کی ترغیب دِلا سکے،اسلام لانے کے فوائد اور اس پر ملنے والی بشارات سے آگاہ کر سکے اور اسلام نہ لانے کے نقصانات اور اللہ پاک کے قہرو غضب و عذاب سے ڈرا سکے نیز لوگوں  کی طرف سے وارِد غیرمتوقَّع سُوالات سے پریشان یا کسی وَسوسے کا شکار نہ ہو ۔ یاد رہے کہ غیر مسلموں کو تبلیغ کرنا، ہر عالم کا بھی کام نہیں ہے۔ عالم کہ دین کی صحیح طورپر معلومات رکھنے کے ساتھ ساتھ، غیر مسلموں کے جس طبقے میں اسلام کی دعوت دینا چاہتا ہے،ان کےمذہب کی اور ان کی طرف سے اسلام پر کیے جانے والے اعتراضات اور ان کے جوابات کی معلومات رکھتا ہو۔حاضر دماغ بھی ہو اور دوسروں کو سمجھانے کی صلاحیت بھی ہو۔ یہ نہ ہو کہ مبلغ کہ جسے فرض علوم تک صحیح طور پر نہیں آتے، اپنے عقائد کی بھی صحیح معلومات نہیں ، وہ جا کر تبلیغ کا کام شروع کردے،شرعاً ایسے شخص کو تبلیغ کرنے کی  بلکل اجازت   نہیں۔ قُربِ قیامت میں بعض لوگ ایسے ہونگے جو دجال کے مکر کا سن کر آزمانے کی نیّت سے جائیں گے اور گمراہ ہو جائیں گے۔

نبی پاک صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:جو دجال کے نکلنے کی خبر سنے  تو وہ اس سے دور بھاگے،خدا کی قسم !آدمی دجال  کے پاس جائے گا اور یہ خیال کرے گا کہ میں تومسلمان ہوں( یعنی مجھے اس سے کیا نقصان پہنچے گا) لیکن وہاں اس کے دھوکوں میں پڑ کر اس  کاپیروکار بن جائے گا۔(ابو داود، اول کتاب الملاحم، باب ذکر خروج الدجال،۴ /۱۵۷، حدیث:۴۳۱۹)

ایمان کی حفاظت کی فکر ضروری ہے

 

دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 692صَفحات پر مشتمل کتاب ''کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب " کے صفحہ 672تا 673پر  بہار شریعت سے منقول ہے۔

کفرو شرک سے بد تر کوئی گناہ نہیں اور وہ بھی اِرتِداد (یعنی دین سے پھر جانا)کہ یہ کُفرِ اصلی(یعنی کافر ہونے) سے بھی باِعتِبار اَحکام سخت تَر ہے جیسا کہ اس کے اَحکام(جاننے)سے معلوم ہو گا۔ مسلمان کو چاہئے کہ اِس(کفر و اِرتِداد) سے پناہ مانگتا رہے کہ شیطان ہر وَقت ایمان کی گھات میں ہے اور حدیث میں فرمایاکہ'' شیطان انسان کے بدن میں خون کی طرح تَیرتا ہے۔'' آدَمی کو کبھی اپنے اُوپر یا اپنی طاعت (و عبادت)و اعمال پر بھروسا نہ چاہئے ، ہر وَقت خدا پر اعتِماد کرے اور اُسی سے بقائے ایمان کی دُعا چاہئے کہ اُسی کے ہاتھ میں قَلْب ہے اورقَلْب کو قَلْب اِسی وجہ سے کہتے ہیں کہ لَوٹ پَوٹ( اُلٹ پلٹ) ہوتا رہتا ہے ۔ ایمان پر ثابت رہنا اُسی کی توفیق سے ہے جس کے دستِ قدرت میں قَلْب ہے اور حدیث میں فرمایا کہ شرک سے بچو کہ وہ چِیونُٹی کی چال سے زیادہ مَخفی( یعنی پوشیدہ) ہے اوراس سے بچنے کی حدیثِ(پاک) میں ایک دُعا ارشاد فرمائی اسے ہر روز تین مرتبہ پڑھ لیا کرو، حُضُورِ اقدس صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد ہے کہ شرک سے محفوظ رہو گے وہ دعا یہ ہے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ اَنْ اُشْرِکَ بِکَ شَیْئًا وَّ اَنَا اَعْلَمُ وَاَسْتَغْفِرُ کَ لِمَا لَا اَعْلَمُ اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الغُیُوْبِ  (بہارِ شریعت، حصہ۹، ۲/ ۴۵۵-۴۵۴)

کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اپنی کم علمی کے باوجود تبلیغ میں مصروف ہو کر، شیطانی وساوس سے اپنے ایمان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھیں۔پارہ 2 سُورَۃُ الْبَقَرَہ آیت نمبر217میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

ترجمہ(Translation):اورتم میں جو کوئی اپنے دین سے مرتد ہوجائےپھر کافر ہی مرجائےتوان لوگوں کے تمام اعمال دنیا و آخرت میں برباد ہوگئےاور وہ دوزخ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (ترجمۂ کنز العرفان) (پ ۲،البقرۃ، ۲۱۷)

ایماں پہ ربِّ رحمت، دیدے تو استِقامت

دیتا ہوں واسِطہ میں تجھ کو تِرے نبی کا

 

نہ جانے ہمارا خاتِمہ کیسا ہو!

 

 ایک طویل حدیثِ پاک میں اللہ پاک کے آخری نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ بھی ارشاد فرمایا: اولاد آدم مختلف طبقات پر پیدا کی گئی ان میں سے بعض مومن پیدا ہوئے حالتِ ایمان پر زندہ رہے اور مومن ہی مریں گے، بعض کافر پیدا ہوئے حالتِ کفر پر زندہ رہے اور کافِر ہی مریں گے جبکہ بعض مومِن پیدا ہوئے مومِنانہ زندگی گزاری اور حالتِ کفر پر مرے بعض کافِر پیدا ہوئے ،کافِر زندہ رہے اور مومِن ہو کر رخصت ہونگے۔

 (ترمذی،کتاب الفتن، باب ما اخبر  النبی اصحابہ۔۔۔الخ ، ۴/۸۱ ،حدیث: ۲۱۹۸ )

الغرض غیر مسلموں کو تبلیغ ماہر عالم ہی کا کام ہے۔

عملِ صالِح:

ارکانِ اسلام(یعنی نماز روزہ وغیرہ) کا پابند اورسُنَّتِ رسُول کا آئینہ دارہو یعنی باعمل ہوکہ  زیورِعلم کے ساتھ عمل کی قوت  بھی ہوتو دعوت   زیادہ فائدہ مند ہوگی۔

اخلاص و رِضائے الٰہی:

      اسلام کی دعوت دیتے وقت صرف اللہ پاک کی رِضا کی نیت دل میں ہو ،نیکی کی دعوت کے بدلے میں کسی دُنیوی مال و جاہ یا نمودونمائش کا طلب گار نہ ہوبلکہ محض اللہ پاک سے اَجرو ثواب کا اُمّیدوار ہو اور’’مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اِصلاح کی کوشش کرنی ہے‘‘کے عالمگیر مَدَنی مقصد کی بجا آوری  کے لیے حقیقی جذبے سے سرشار(لبریز) ہو۔ 

اللہ پاک پر توکل:

اپنے کثیرعلم،زورِ بیان اور صلاحیت و قابلیت پرنہیں بلکہ اللہ پاک پربھروسا کرنے والا ہوکہ وُہی ہدایت دینے والاہے۔

اَخلاق وکِردار: 

       جب کسی کو نیکی کی دعوت دے تو نہایت خوش اَخلاقی اور خندہ پیشانی سے پیش آئے۔

صَبْرو تَحَمُّل،عَفْوْ ودَرگُزر:

       راہِ خدا میں کوئی مشکل درپیش ہوجائے،  کسی تلخ  کلام  (یابد زبان )سے واسِطہ پڑجائے تو صبر کرنے والا ہو بلکہ کوئی پتَّھر بھی مار دے تو  اللہ پاک کے آخری نبیصَلَّی  اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سُنَّت کی نیَّت کرتے  ہوئے اسے مُعاف کرنے کا جذبہ رکھتاہونہ کہ  انتقامی جذبات سے طیش میں آجائے ۔

حِکمت وحُسنِ تدبیر:

      حالات بھانپ کر اورموقع محل دیکھ کراس کے مطابق گفتگوکرنے والاہو۔

اَمْرٌ بِالْمَعْرُوْف وَنَہْیٌ عَنِ الْمُنْکَر

      جہاں بھی کوئی برائی دیکھے حسبِ اِستِطاعت(یعنی اپنی بِساط اور حیثیّت کے مطابق)امربالمعروف و نہی عن المنکر (یعنی نیکی کی دعوت دینے  اوربرائی سے منع)کرنے والا ہو۔اس میں ٹال مٹول سے کام لے  نہ کسی ملامت کرنے والے کی پروا کرے۔برائی سے روکنے کا یہ جذبہ دینِ اسلام کی دعوت دینے کے لیے مددگار ہوگا۔

رحمتِ الٰہی عَزَّ وَجَلَّ سے پُراُمید:

ہمیشہاللہپاک  کی رحمت پر نظر رکھنے والا ہواور مایوسی کو قریب بھی نہ پھٹکنے دے ۔

(فیضانِ مدنی مذاکرہ ،قسط نمبر ۸،ص۲۰-۲۴ ملتقطاً)

اگر کسی کو اسلام کی طرف مائل پائیں تو

اگرکسی کو اسلام کی طرف مائل پائیں تو موقع محل اور اس کی موجودہ حالت کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے اسلام کی دعوت پیش کریں مثلاً یہ کہہ دیجیے کہ آپ اسلام قبول کر لیں،اگر  وہ کچھ اعتراضات وغیرہ کرے تو بحث وتکرار  کرکے الجھنے کے  بجائے اسے کسی سنی عالم کے پاس لے  جائیں یاپھر   ان کے پاس جانے  کا مشورہ دے دیں۔

کوئی خود آگیا کہ مجھے مسلمان کردو (عورت ہو یا مرد) یا آپ نے جسے کہا اس نے کہا کہ مجھے مسلمان کروادو۔

 اگر کوئی خود آکر کہے کہ مجھے مسلمان کردو یا کسی کو اسلام کی دعوت دی گئی اور وہ مسلمان ہو گیا تو اسی وقت بغیر تاخیر کئےاسے مسلمان کردیجئے خواہ وہ عورت ہی کیوں نہ ہو(اگر عورت بے پردہ ہو تو نگاہِ  نیچی رکھ کر اُسے  آگے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کلمہ پڑھا دیجیے)۔ 

کافر کو مسلمان کرنے کا طریقہ:

      کافِر کو مسلمان کرنے کے لئے پہلے اُسے اُس کے باطِل مذہب سے توبہ کروائی جائے مثلاً مسلمان ہونے کا خواہش مندکرسچین ہے،تو اُس سے کہئے:کہو،’’میں کرسچین مذہب سے توبہ کرتا ہوں‘‘ جب وہ یہ کہہ لے پھر اُسے کلِمہ طیِّبہ یا کلمۂ شہادت پڑھائیے (عربی میں کلمہ شہادت)اَشْہَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ وَ اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ وَ رَسُوْلُہاگر عَرَبی نہیں جانتا تو جو بھی زَبان سمجھتا ہو اُسی زبان میں ترجَمہ بھی کہلوا لیجئے یعنی وہ کہہ دے کہ اللہ کے سوا کوئی بھی عبادت کے لائِق نہیں، محمّد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم اللہ کے رسول ہیں۔اِس طرح سے وہ شخص مسلمان ہو جائے گا۔                               (کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب، ص۵۵۱، بتصرف)

 

کیا قَبولِ اسلام سے قَبل نہانا ضَروری ہے؟

سُوال: کیاقَبولِ اسلام سے قبل کافر کو نہلانا فرض ہے؟

 

جواب:قَبولِ اسلام سے قبل غسل کروانا فرض نہیں بلکہ خواشمند کو (یعنی جو مسلمان ہونے کا کہہ رہا ہو) فوراً مسلمان کرنا فرض ہے۔البتّہ قبولِ اسلام کے بعد(غسل کروانا) افضل ہے ۔ (کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب، ص ۵۵۲)

کافرکے مُطالَبہ پر عالِم کے پاس قَبولِ اسلام کیلئے لے جانا

 

سُوال:اگر کوئی کافر کسی مسلمان سے کہے کہ فُلاں عالِم کے پاس لے چلو مجھے انہی کے ہاتھ پر اسلام قَبول کرنا ہے تو اُس مسلمان کو کیا کرنا چاہئے؟

 

جواب: (ایسی صورت میں بھی پہلے تو اسے سمجھا کر کلمہ پڑھنے کا کہیں لیکن اگروہ شخص پھر بھی انہی کے پاس جانے کا مطالبہ کرے تو) چُونکہ اُس کا مطالَبہ ہے لہٰذااُسے اُس عالم صاحِب کی خدمت میں پیش کر دے ایسا کرنے میں وہ مسلمان گنہگار نہیں بلکہ ثواب کا حقدار ہے۔

(کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب، ص ۵۵۰)

 

کافِر کے اِسلام قَبول کرنے کے بارے میں سُوال جواب

قَبولِ اسلام کے طالِب کو سوچنے کا مشورہ دینا کیسا؟

 

سُوال:کوئی کافر اگرمسلمان ہونا چاہے تو اُس کو اِس طرح سمجھانا کیسا کہ بھائی !خوب اچّھی طرح غور کر لو کہیں مسلمان ہونے کے بعد پریشانی نہ اُٹھانی پڑے۔

جواب :کافِرکو اس طرح سمجھانا مسلمان ہونے سے روکنا ہوا، اُس سمجھانے والے پر حکمِ کُفر ہے ۔جب بھی کوئی کافِر مسلمان ہونا چاہے اس کو فوراً مسلمان کرنا فرض ہے۔ اور اگر وہ پریشانیاں آنے کی بات کرے تو اُس کو تلقینِ صَبْر(یعنی صبر کی نصیحت) کیجئے ۔(کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب، ص ۵۵۰ )

 

غیر مسلم خود کہے کہ مجھے مسلمان کر دو، تو اب کسی کے پاس لے جانا کیسا؟

جو شخص اسلام لانے کا  خواشمند ہو اسےفوراً مسلمان کرنا فرض ہے،اگر عالم صاحب یا امام صاحب کے پاس لے جانے کے لئے اس میں تاخیرکی گئی اوراتنی دیر تک اسے مسلمان نہیں کیا  گیا تو جس شخص  کے پاس اسلام کا خواہشمند آیااس پر حکم کفر ہے۔شرح فقہ اکبر میں ہے:کسی کافر نے مسلمان سے کہا: مجھ پر اسلام پیش کرو(یعنی کلمہ پڑھا دو)تو اس نے کہا کہ فلاں(عالم) کے پاس چلے جاؤ تو اس شخص کو کافر قرار دیا جائے گاکیونکہ وہ عالم سے ملاقات کے وقت تک کافر کے حالت کفر میں باقی رہنے پر راضی ہے(اور کفر پر راضی ہونا بھی کفر ہے)۔(شرح فقہ اکبر،ص۱۷۷)(فتاوی مفتی اعظم ہند،2/181)

جسےغیر مسلم خود کہے کہ مجھے مسلمان کر دو، اور اُس نے تاخیر کردی تو وہ اب کیا کرے؟

تجدیدِ ایمان ، تجدیدِ نکاح اور تجدیدِ بیعت کرلے۔

 

تجد ید ایمان کا طریقہ

 

دیکھئے ! توبہ دل کی تصدیق کے ساتھ ہونی ضَروری ہے صِرف زَبانی توبہ کافی نہیں۔مَثَلاًکسی ایک نے کفر بک دیا اُس کودوسرے نے اس طرح توبہ کروادی کہ اُس کو معلوم تک نہیں ہوا کہ میں نے فُلاں کفر کیا ہے جس سے میں اب توبہ کر رہا ہوں ۔ اس طرح توبہ نہیں ہوسکتی۔ بَہَرحال جس کفر سے توبہ مقصودہے وہ اُسی وقت مقبول ہوگی جبکہ وہ اس کفر کو کفر تسلیم کرتا ہو، دل میں اُس کفر سے نفرت و بیزاری بھی ہو۔ جو کفر سرزد ہوا توبہ میں اُس کا تذکِرہ بھی ہو۔مَثَلًا  یوں کہے  ’’مجھ سے غیر مسلم نے کہا  تھا کہ '' مجھے مسلمان کردو'' اور میں نے اس میں تاخیر کر دی تھی یابغیر اس کی خواہش کے اسے  کسی اور کے پاس لے گیا تھا‘‘ اور چونکہ یہ کفر ہے لہٰذا  میں اس سے بیزار ہوں اوراس کفر سے توبہ کرتا ہوں ۔اور اگر توبہ کرتے وقت یہ بات اس کے ذہن میں ہے کہ میں فلاں کفر سے توبہ کر رہا ہوں تو یہ کافی ہے اس صورت میں زبان سے کہنے کی حاجت نہیں لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم۔ اللہ پاک کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، محمد صَلَّی اللہُ تَعَالی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اللہ پاک کے رسول ہیں ۔ اس طرح مخصوص کفر سے توبہ بھی ہو گئی اور تجدیدِ ایمان بھی۔ 

 

تجدِ ید نِکاح کا طریقہ

 

    تَجدیدِ نِکاح کا معنیٰ ہے : ''نئے مَہر سے نیا نِکاح کرنا''۔ اِس کیلئے لوگوں کو اِکٹھّا کرنا ضَروری نہیں ۔نِکاح نام ہے اِیجاب و قَبول کا ۔ ہاں بوقتِ نِکا ح بطورِ گواہ کم ازکم دو مَرد مسلمان یا ایک مَرد مسلمان اور دو مسلمان عورَتوں کا حاضِرہونا لازِمی ہے ۔خُطبہ نِکاح شرط نہیں بلکہ مُسْتَحَب ہے ۔ خُطبہ یاد نہ ہوتو اَعُوْذُ بِاﷲ اور بِسمِ اﷲشریف کے بعد سورہ فاتِحہ بھی پڑھ سکتے ہیں ۔کم ازکم دس درہم یعنی دو تولہ ساڑھے سات ماشہ چاندی (30.618گرام ) یا اُس کی رقم مہَر واجِب ہےاس سے زیادہ بھی رکھ سکتے ہیں ۔ تو ا ب مذکورہ گواہوں کی موجودَگی میں آپ ''اِیجاب'' کیجئے یعنی عورت سے کہیے :'' میں نے مثلا ًپاکستانی 4000 روپے مہَر کے بدلے آپ سے نکاح کیا ۔'' عورَت کہے :'' میں نے قَبول کیا ۔'' نکاح ہو گیا ۔ بعدِ نکاح اگر عورت چاہے تو مَہرمُعاف بھی کر سکتی ہے ۔ مگر مَرد بِلاحاجتِ شرعی عورت سے مَہر مُعاف کرنے کا سُوال نہ کرے ۔

(گانوں کے 35 کفریہ اشعار، ص 27 تا 30 مُلخصاً)

تجدِ ید بیعت  کا طریقہ

    کسی بھی جامع شرائط پیر سے بیعت کرلے۔ اگر کسی جامع شرائط پیر سے پہلے سے بیعت تھا، تو ان ہی سے دوبارہ بیعت  کرلے۔

 

کیا نَو مسلِم کو اسلامی تعلیم بھی دینی ہو گی؟

 

سُوال:جو نیا مسلمان ہوا کیا اُس کو اسلامی تعلیمات دینی ہوں گی ؟

 

جواب: جی ہاں۔ اِس ضِمن میں فتاوٰی رضویہ شریف جلد 24 صَفْحَہ 146 پر دیئے گئے ایک سُوال کا خُلاصہ ہے:''جس ملک کے نو مسلم اسلامی تعلیمات سے بے خبر ہوں ،   کفّار کی صحبت کی وجہ سے کُفرو اسلام کی بَہُت ساری باتوں کا فرق بھی نہ جانتے ہوں ان کو پہلے پہل کیا سکھایا جائے ؟ عقائدِ اسلامیہ و احکاماتِ شرعیہ کی تعلیم دی جائے یا تصوُّف کی باریکیاں وغیرہ سمجھائی جائیں؟میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رَضا خان علیہ رحمۃُالرَّحمٰن نے جو جواب ارشاد فرمایا:اِس میں یہ بھی ہے: بَدِیہیاتِ دینیہ (یعنی وہ مشہور دینی اَحکام جن کو عوام وخواص سب جانتے ہوں)سے ہے کہ اَوَّلاً عقائدِ اسلام و سنَّت پھر احکامِ صلوٰۃ و طہارت وغیرہا ضَروریاتِ شرعِیَّہ سیکھنا سکھانا فرض ہے اور انھیں چھوڑ کر دوسرے کسی مستحب و پسندیدہ علم میں بھی وَقت ضائِع کرنا حرام ۔(فتاوٰی رضویہ،  ۲۴/۱۴۶، ۱۵۸)  معلوم ہوا ایسے نو مسلموں کو عقائد و احکام اورضَروریاتِ شرعِیّہ سکھانا فرض ہے اوریِہی خود بھی سیکھنا فرض۔ تَصوُّف کی باریکیاں تو آج کل بڑے بڑوں کو سمجھ میں نہیں آتیں! مزید صَفحَہ 159پر فرماتے ہیں:انھیں ابھی سیدھے سیدھے اَحکام سمجھنے کے لالے ہیں ان مُتَشابَہات (اور پیچیدہ باتوں)کو کون سمجھے گا! ۔ حدیث میں ہے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم فرماتے ہیں: یعنی جب تُو کسی قوم کے آگے وہ بات بیان کریگا جس تک اُن کی عقلیں نہ پہنچیں توضَرور وہ ان میں کسی پرفِتنہ ہو گی۔ (اَ لْجامِعُ الصَّغِیر، ص۴۷۹،  حدیث: ۷۸۳۸،تاریخ دمشق لابن عَساکِر، ۳۸/۳۵۵)

 

(کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب، ص ۵۵۶،۵۵۷ مُلخصاً)

نَو مسلِم کے لئے اِبتِدائی معلومات کے ذَرائِع

سُوال:نو مسلم کو ابتِدائی اسلامی معلومات کس طرح فراہَم کی جائیں؟

جواب:کسی سُنّی عالِمِ دین کی خدمت میں پیش کیا جائے جو اس کو بُنیادی عقائد سکھائے۔ اگر  اُردویاانگلش جانتا ہو تو خلیلُ الْعُلَماء حضرتِ علامہ مولیٰنا مفتی محمدخلیل خان بَرَکاتی رَحْمَۃُ اللہَ تَعَالٰی عَلَیْہ کی کتاب ہمارا سلام (مکمّل ) اُس کو پڑھنے کیلئے پیش کر دیجئے۔ یا اُس میں سے پڑھ پڑھ کر اُس کو اسلامی عقائد سمجھائیے اور ثواب کمائیے۔ اُس کو مسلمان کرنے کے بعد تربیّت کے بِغیر چھوڑ دینا مناسب نہیں۔ (دعوتِ اسلامی کی مجلس نیو مسلم کے ذریعے بھی تربیت دی جاسکتی ہے)۔ (کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب، ص۵۵۵)