حج ہر سال مکۃ المکرمہ میں ادا کیا جاتا ہے۔ جن مسلمانوں میں شرعی شرائط کے مطابق حج پر جانے کی قابلیت ہے صرف اُنہی پر زندگی میں ایک بار حج فرض ہے، اللّٰہ رب العالمین قرآنِ مجید میں فرماتا ہے:
فِیْہِ اٰیٰتٌم بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰہِیْمَج وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًاط وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًاط وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَo (پ۴، اٰلِ عمرٰن:۹۷)
ترجمۂ کنزالایمان:
اس میں کھلی نشانیاں ہیں ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ اور جو اس میں آئے امان میں ہو اور اللّٰہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا ہے جو اس تک چل سکے اور جو منکر ہو تو اللّٰہ سارے جہان سے بے پرواہ ہے۔
دنیا بھر سے لاکھوں مسلمان ہر سال مکے شریف میں حاضر ہوتے ہیں اور حج ادا کرتے ہیں، حج دنیا کے مختلف علاقوںمیں رہنے والے مسلمانوں کو یہ موقع عطا کرتا ہے کہ وہ ایک جگہ پر جمع ہوکر اپنے حالات کا ایک دوسرے سے تبادلہ کریں اور اللّٰہ تعالیٰ کے مہمان بن کر اپنی اسلامی قوت کا اظہار کریں، حج اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان اوراس کی کامل اِطاعت کا زبردست اِظہار ہے اور مناسک حج جو ادا کیے جاتے ہیں یہ اللّٰہ تعالیٰ کی غیر مشروط اطاعت کی نشانی ہے، حاجی اس کے علاوہ کچھ نہیں چاہ رہا ہوتا کہ اس کی یہ محنت اللّٰہ تعالیٰ قبول فرما کر اس کے سارے گناہ معاف کردے، وہ شخص جو حج کرکے واپس لوٹتا ہے وہ ایک نئی شخصیت لیے ہوئے واپس آتا ہے، اس کی روح پاک ہوچکی ہوتی ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کے فضل کی بارش میں وہ نہا کر اپنے گناہوں کے میل کچیل اتار کر واپس آتا ہے۔