زکوٰۃ

زکوٰۃ کا معنی ہے پاک کرنا یا زیادتی، چونکہ زکوٰۃ دینے سے مال پاک بھی ہوتا ہے اور بڑھتا بھی ہے اس لیے اس کو زکوٰۃکہتے ہیں، یہ اسلام کا بڑا اہم فلسفہ ہے کہ ساری چیزیں اللّٰہ تعالیٰ کی ملکیت میں ہیں، اللّٰہ تعالیٰ ہی ہر شے کا مالک ہے اور مسلمانوں پر یہ لازم کیا گیا ہے کہ وہ رزقِ حلال کمائیں اور اِس کمائے ہوئے رزقِ حلال سے اللّٰہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کریں اور ایسے خرچ کریں جیسے اللّٰہ اور اس کے حبیبصَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے خرچ کرنے کی تعلیم دی ہے۔

زکوٰۃ اللّٰہ تعالیٰ کا دیا ہوا ایک بہترین نظام ہے، یہ خیرات بھی نہیں ہے اور یہ ٹیکس بھی نہیں ہے مگر ہر اُس مسلمان کیلئے شرعی فرض ہے جس کو اللّٰہ تعالیٰ نے اتنی دولت دی ہے جو اس کی ضرورتوں سے زیادہ ہو اور نصاب کو پہنچتی ہو لہٰذا ٹیکس اور زکوۃ میں یہ بڑا واضح فرق ہے کہ مسلمان اپنی خواہش سے اور اپنی مرضی سے زکوٰۃاداکرتا ہے اور اس کا حساب لگاتا ہے، اپنی مرضی سے حصول ثواب کیلئے خود مسلمان ہی زکوۃ کے معاملہ کو دیکھتے ہیں، اُن پرکوئی زبردستی نہیں کی جاتی جبکہ ٹیکس کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔

زکوٰۃ مسلمان پر صرف اُسی وقت فرض ہوتی ہے جب وہ صاحب نصاب بنتا ہے اور اُس نصاب پر سال گزر جاتا ہے، زکوٰۃ کی تفصیلی معلومات( مثلاًحساب لگاناوغیرہ ) دارالافتاء سے معلوم کی جائیں۔

زکوٰۃمسلمان کو لالچ سے پاک کردیتی ہے اور خود غرضی سے بھی جان چھوٹ جاتی ہے نیز مال و دولت اور دنیا کی محبت بھی اس کے دل سے نکل جاتی ہے، اللّٰہ تبارک و تعالیٰ قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُالدَّارَ وَالْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ ہَاجَرَ اِلَیْہِمْ وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِہِمْ حَاجَۃً (پ۲۸، الحشر:۹)

ترجمۂ کنزالایمان:

اور جنہوں نے پہلے سے اس شہراور ایمان میں گھر بنالیا دوست رکھتے ہیں اُنہیں جو ان کی طرف ہجرت

مِّمَّآ اُوْتُوْا وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌط وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ

کرکے گئے اور اپنے دلوں میں کوئی حاجت نہیں پاتے اس چیز کی جو دیئے گئے اور اپنی جانوں پر ان کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں شدید محتاجی ہو اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیاتو وہی کامیاب ہیں ۔
زکوٰۃ ایک ایسا نظام ہے جس کے ذریعے سے مساکین وفقراء اور غریب و نادار کی ضرورتوں کو بڑے احسن انداز سے پورا کیا جاسکتا ہے اور چند مالدار لوگوں پر اس کا زیادہ دباؤ بھی نہیں پڑتا جسکی وجہ سے اُن کیلئے کوئی مشکل پیدا نہیں ہوتی کیونکہ زکوٰۃ مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد دے رہی ہوتی ہے، اگر زکوٰ ۃ کے نظام پر پورا پورا عمل کیا جائے تو دنیا بھر کے غریب، فقیراور مسکین مسلمانوں کی ضرورتیں با آسانی پوری ہوسکتیں ہیں۔